Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں سائفر اور توشہ خانہ کیس میں سزائیں: کیا ’حقِ دفاع سے محروم...

سائفر اور توشہ خانہ کیس میں سزائیں: کیا ’حقِ دفاع سے محروم رکھنا‘ اور ’342 کا بیان‘ نہ ہونا اپیل کے مرحلے میں عمران خان کو فائدہ دے گا؟

1
0

SOURCE :- BBC NEWS

عمران خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, اعظم خان
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام اسلام آباد
  • 9 منٹ قبل

پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان کو دو دنوں میں دو اہم مقدمات میں 10 اور 14 برس قید کے علاوہ کروڑوں روپے جرمانے کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

بدھ کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ ریفرینس میں 14، 14 سال قید کی سزا سنانے کے ساتھ ساتھ عمران خان کو 10 برس کے لیے نااہل بھی کر دیا۔ جبکہ گذشتہ روز سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سائفرگمشدگی کیس میں عمران خان اور ان کی جماعت کے سینیئر رہنما شاہ محمود قریشی کو دس دس برس قید کی سزا دی ہے۔

ان دونوں مقدمات میں جہاں عمران خان کو دی جانے والی سزا کی شدت پر بات ہو رہی ہے وہیں یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ عمران خان اور شریک ملزمان کو عدالتی کارروائی کے دوران اپنے دفاع کا مکمل موقع نہیں ملا۔ اور ان مقدموں کے فیصلوں میں قانونی سقم موجود ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کا کہنا ہے کہ سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو مقدمے کے اختتامی مراحل میں اپنی مرضی کے وکلا سے مدد لینے کی اجازت نہیں دی گئی اور عدالت نے ملزمان کی طرف سے ان مقدمات کی پیروی کے لیے سرکاری وکیل مقرر کر دیے۔

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اسی مقدمے میں شاہ محمود قریشی کا ’342 کا بیان‘ نہیں لیا گیا جبکہ بدھ کو توشہ خانہ ریفرنس میں فیصلہ سنائے جانے سے قبل عمران خان کو بھی یہ حق نہیں مل سکا۔

پاکستان تحریک انصاف نے ان فیصلوں کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان فیصلوں میں قانونی سقم ہیں۔

جس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدالتی فیصلوں میں عمران خان اور شریک ملزمان کو حق دفاع نہ دیے جانا یا ان کے 342 کے بیانات ریکارڈ نہ کرنے جیسے اقدامات سے فیصلوں کے خلاف اپیل کے مرحلے پر کیا اثر پڑ سکتا ہے اور کیا یہ عمران خان کو فائدہ دے سکتا ہے؟

مگر اس بحث سے قبل ایک نظر اس پہلو پر کہ 342 کا بیان کیا ہوتا ہے اور اسے ملزم کا بنیادی حق کیوں قرار دیا جاتا ہے؟

342 کا بیان ہوتا کیا ہے، کیا ملزم کا بیان لیے بغیر فیصلہ سنایا جا سکتا ہے؟

فوجداری مقدمات میں ملزم کو کچھ بنیادی حقوق دیے گئے ہیں۔ جن میں سے سب سے اہم اسے براہ راست صفائی کا موقع فراہم کرنا ہے۔

یہ بیان اگرچہ کسی بھی وقت ریکارڈ کرایا جا سکتا ہے مگرعام طورپرجب ملزم کے وکلا استغاثہ کی طرف سے پیش کیے گئے تمام ثبوتوں اور گواہان پر جرح مکمل کر لیتے ہیں تو پھرعدالت ملزم کا ایک بیان ریکارڈ کرتی ہے، جسے ضابطہ فوجداری میں 342 کا بیان کہا جاتا ہے۔

اس بیان میں ملزم جج کو براہ راست بتاتا ہے کہ وہ کیسے قائم کیے مقدمے میں بے گناہ ہے اور اس پر مقدمہ قائم کرنے کی پیچھے کیا محرکات ہو سکتے ہیں۔ ملزم کو آزادی ہوتی ہے کہ وہ بغیر حلف لیے جو بھی کہنا چاہے عدالت کے سامنے کہہ دے۔

قانون میں یہ کہا جاتا ہے کہ کسی ملزم کو سنے بغیر سزا نہیں سنائی جا سکتی مگر اب دو دنوں کے اندر دو ایسے مقدمات سامنے آئے ہیں، جہاں جج نے ملزمان کا بیان سنے بغیرانھیں سزائیں سنا دیں۔

توشہ خانہ ریفرنس

،تصویر کا ذریعہGOVERNMENT OF PAKISTAN

ان فیصلوں کا اپیل پر کیا اثر ہو گا؟

ان عدالتی فیصلوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینیئر وکیل خواجہ نوید احمد کہتے ہیں کہ اب وہ جو فیصلے دیکھ رہے ہیں وہ بغیر ٹرائل کے ہی سنائے جا رہے ہیں۔

خواجہ نوید کا کہنا ہے کہ جب ملزم کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے، گواہان پر جرح اور اپنا بیان تک ریکارڈ کرنے کی اجازت نہ دی جائے تو پھر اسے سرے سے ٹرائل ہی نہیں کہا جا سکتا ہے۔

ان کے خیال میں ’ان فیصلوں کو انتخابات سے قبل محض ووٹرز میں دہشت پھیلانے کے حربے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ماضی میں بھی جو ٹرائل اور سزائیں سنائی جاتی تھیں وہ اعلیٰ عدلیہ میں برقرار نہیں رہ سکی تھیں مگر ان ٹرائل کا ضابطہ کار ضرور پورا کیا جاتا تھا۔

یاد رہے کہ سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف قائم کردہ طیارہ ہائی جیکنگ مقدمے میں خواجہ نوید احمد نواز شریف کے وکیل بھی رہ چکے ہیں۔

ہمیں توشہ خانہ کیس میں حقِ دفاع سے محروم رکھا گیا: چیئرمین پی ٹی آئی

GOHAR ALI KHAN

،تصویر کا ذریعہGOHAR ALI KHAN

تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے اعلیٰ عدالتوں میں توشہ خانہ کی سزائیں برقرار نہیں رہ سکیں گی۔

عمران خان کی توشہ خانہ ریفرنس میں سزا کے فیصلے کے بعد نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے کارکن مایوس نہ ہوں اور پُرامن رہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ فیصلہ ناانصافی نہیں بلکہ ظلم ہے۔ کسی عدالت نے آج تک ایسا فیصلہ نہیں دیا۔۔۔نیب ایک پارٹی کے لیڈر کے خلاف کیس ختم کر رہی ہے دوسری طرف ایسی سخت سزائیں دلوائی جا رہی ہیں۔‘

بیریسٹر گوہر نے الزام عائد کیا کہ ’ہمیں حق دفاع نہیں دیا گیا، وقت نہیں دیا گیا۔ وکلا کے ہوتے ہوئے جرح کی اجازت نہیں دی گئی۔ 342 کا بیان قلمبند کروانے نہیں دیا گیا۔‘

گوہر علی خان نے مزید کہا کہ ’بشریٰ بی بی کا توشہ خانہ کیس سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، وہ عدالت جانے کے راستے میں تھیں، ان کی غیرموجودگی میں فیصلہ سنایا گیا۔۔۔ یہ صرف عمران خان پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا گیا۔‘

ان کے مطابق ’دس بجے سماعت کا وقت دیا، داخلے میں وقت لگتا ہے وکلا نے داخل ہونا تھا۔ ہم نے گواہ لانے تھے۔‘ انھوں نے یہ امید ظاہر کی کہ ’ہائیکورٹ سے جلد اپیل سننے کی گزارش کریں گے۔‘

ُعلی ظفر

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور وکیل علی ظفر نے بھی نجی ٹی وی چینل جیو نیوز پر عدالتی فیصلوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ جلدی میں کیا گیا ٹرائل ہے۔ عدالت نے 17 گواہان پر جرح کا حق نہیں دیا۔

ان کے مطابق ’عدالت نے کہا کہ ہائیکورٹ سے آرڈر لے کر آئیں۔ اگر ایک دن میں اجازت مل جاتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم جرح کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

علی ظفر کے مطابق ’آج صبح ہی ہائیکورٹ کی سماعت سے قبل ہی فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے یہ مس ٹرائل ہے، یہ جلد بازی والا کیس ہے، اس میں کوئی جان نہیں ہے۔ یہ غیرقانونی ہے۔‘

علی ظفر نے کہا کہ وہ خود ہائیکورٹ میں اس مقدمے میں بطور وکیل پیش ہوں گے۔

پاکستان تحریک انصاف نے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سزا سنانے کے فیصلے پر رعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح سزا سنائی گئی ہے، یہ ہماری عدلیہ پر ایک بڑا سوال ہے۔

پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے سائفر اور توشہ خانہ مقدمات میں قانون کی کوئی پرواہ نہیں کی ہے۔ تحریک انصاف کے مطابق ہائیکورٹ میں یہ قابل شرم ٹرائل کوڑے دان کی نظر ہو جائے گا۔

’یہ اوپن اینڈ شٹ کیس تھا‘، ن لیگ

مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق مشیر قانون عطا تارڑ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سنائی گئی سزاؤں کا دفاع کیا ہے۔

فیصلے کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ یہ ’اوپن اینڈ شٹ‘ کیسز تھے جن کے حوالے سے تحریک انصاف کے وکلا ’تاخیری حربے‘ استعمال کر رہے تھے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں ’ملک میں ریاست مدینہ کے نام پر کرپشن کی گئی۔‘

’اونے پونے داموں خریدے گئے (سرکاری) تحائف کو مارکیٹ میں بیچا گیا (اور) تحائف کی مالیت کم ظاہر کر کے بلیک مارکیٹ میں مہنگے داموں بیچا گیا۔‘

’یہ سزا ہائیکورٹ کے سامنے پانچ منٹ بھی برقرار نہیں رہ سکتی‘، سابق پراسیکیوٹر نیب

عمران شفیق نیب کے سابق سپیشل پراسیکیوٹر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عمران خان کو سنائی جانے والی ’یہ سزا قانونی اعتبار سے کسی ہائیکورٹ میں پانچ منٹ بھی برقرار نہیں رہ سکتی۔‘

عمران شفیق کے مطابق اس مقدمے کے دو پہلو ہیں۔ ہائیکورٹ اس مقدمے کے نئے اور شفاف ٹرائل کے لیے دوبارہ مقدمہ ٹرائل کورٹ کو بھیج دے یا پھر ٹرائل میں اختیار کی جانے والی ’غیرسنجیدگی‘ کو دیکھتے ہوئے ملزمان کو بری کر دے۔

ان کے مطابق انھیں ابھی یہ سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ ’یہ تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف انتقامی کارروائی کی گئی ہے یا فیور کی گئی ہے۔‘

عمران شفیق کے مطابق عام طور پر ملٹری جسٹس اور ملٹری ٹرائل پر اعتراض کیا جاتا ہے مگر یہ ’پراسس‘ ان عدالتوں سے بھی آگے نکل گیا ہے۔

وہ پانامہ مقدمات میں نواز شریف کے خلاف بطور پراسیکیوٹر احتساب عدالتوں کے سامنے بھی پیش ہوتے رہے۔ ان کی رائے میں پہلے مقدمات میں بظاہر قانون کے سارے تقاضے پورے کیے جاتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان مقدمات میں سزا درست ہوئی یا نہیں اس بحث سے ہٹ کر ضابطہ کار کو نہیں کچلا گیا جبکہ عمران خان کے مقدمے میں ٹرائل ہوا ہی نہیں۔

سابق سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق کے مطابق پانامہ ٹرائل میں بھی نواز شریف کے خلاف ایک سال تک مقدمہ چلا، گواہان پیش ہوئے، ان پر جرح کی گئی، مختلف درخواستیں دائر ہوئیں اور پھر نواز شریف سمیت دیگر ملزمان کے بیانات تک ریکارڈ کیے گئے اور پھر سزائیں سنائی گئیں۔

عمران شفیق کے مطابق عمران خان اوردیگر ملزمان کا جیل میں ٹرائل ہوا۔ انھیں ان کی مرضی کے وکلا سے محروم رکھا گیا۔ ان کے مطابق سرکاری وکیلوں کے سامنے ایک ہی دن میں نو گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے، جس کا فئیر ٹرائل میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

جج محمد بشیر اور جج ابوالحسنات کے فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جج (محمد بشیر) نے رخصت لینے کی کوشش کی، وہ نہیں دی گئی، جج جیل کی ہسپتال میں چلے گئے اور پھر انھوں نے ایک دن بعد یہ فیصلہ سنا دیا۔‘

سوشل میڈیا پر ردعمل: ’کیا تصویریں دیکھ کر جیولری کی قیمت کا اندازہ لگانا ممکن ہے؟‘

اس وقت پاکستان میں سوشل میڈیا پر عمران خان کو سنائی جانے والی سزاؤں پر بحث جاری ہے۔ کوئی ٹرائل کے حق میں تو کوئی اس کے خلاف اپنی آرا کا اظہار کر رہا ہے۔

احمد وڑائچ نامی صارف نے توشہ خانہ کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ ’الزام یہ تھا کہ توشہ خانہ سے ایک جیولری سیٹ لیا، جس کی قیمت ایک کروڑ 80 لاکھ روپے لگائی گئی۔عمران خان نے قانون کے مطابق 50 فیصد یعنی 90 لاکھ روپے دیے۔ نیب کا کہنا ہے جیولری سیٹ کی قیمت زیادہ تھی، دبئی میں ایک بھارتی کمپنی کے پارٹ ٹائم سیلز مین نے تصویر دیکھ کر فیصلہ کیا کہ قیمت تین ارب روپے اور چھ کروڑ بنتی ہے۔۔ (یہ سیلز مین پارٹ ٹائم مکینک کا کام بھی کرتا ہے) اس پر سزا سنائی گئی۔ کیا تصویریں دیکھ کر جیولری کی قیمت کا اندازہ ممکن ہے؟ کیس میں نہ عمران خان کا 342 کا بیان ریکارڈ ہوا نہ بشریٰ بی بی کا، نہ حتمی دلائل ہوئے۔‘

صحافی عاصمہ چوہدری نے لکھا کہ ’عمران خان اور بشری بی بی کو توشہ خانہ کیس میں 14 سال قید با مشقت کی سزا۔۔سب کچھ 8 فروری سے پہلے ہی مکمل کرنا ہے۔‘

الیکشن کمیشن کے سامنے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے خلاف شکایت کنندہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما محسن شاہنواز رانجھا نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’میں نے کہا تھا کہ میں عمران احمد نیازی کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا کے چھوڑوں گا۔ توشہ خانہ کیس میں نااہل نیازی ایک بار پھر نااہل۔‘

SOURCE : BBC