Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں مچھ آپریشن: ’تھانے کی چھت پر کھڑے حملہ آور پولیس کو سرینڈر...

مچھ آپریشن: ’تھانے کی چھت پر کھڑے حملہ آور پولیس کو سرینڈر کرنے کا کہتے رہے‘

1
0

SOURCE :- BBC NEWS

مچھ

،تصویر کا ذریعہEPA

  • مصنف, محمد کاظم
  • عہدہ, بی بی سی اردو، کوئٹہ
  • 46 منٹ قبل

’مچھ شہر میں 29 اور 30 جنوری کی درمیانی شب دھماکوں کے ساتھ جس بڑے پیمانے پر فائرنگ ہو رہی تھی، اس سے ایسا لگ رہا تھا جیسے گولیوں کی بارش ہو رہی ہو۔‘

یہ کہنا تھا بلوچستان کے درہ بولان میں واقع شہر مچھ کے رہائشی محمد اقبال یوسفزئی کا جو کہ علاقے کے معروف مزدور رہنما بھی ہیں۔

بلوچستان سی ٹی ڈی پولیس کے مطابق مچھ میں کلئرنس آپریشن کے دوران گیارہ دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ سات یرغمال شہریوں کو بحفاظت بازیاب کروا لیا گیا ہے۔

اس سے قبل پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق 29 اور 30 جنوری کی درمیانی شب خودکش بمبار سمیت متعدد دہشتگرد مچھ اور کولپور کی تنصیبات پر حملہ آور ہوئے تھے جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران تین خودکش بمباروں سمیت نو دہشتگردوں کو ہلاک کیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق اس حملے کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چار اہلکار جبکہ دو معصوم شہری بھی ہلاک ہوئے۔

اقبال یوسفزئی سمیت مچھ کے لوگ کہتے ہیں کہ اس حملے اور پھر آپریشن کے دوران دھماکوں اور فائرنگ کی گونج نے اس شہر کو ’ویران‘ کر دیا ہے اور اس کی وجہ سے تاحال ’معمولات زندگی مفلوج ہیں۔‘ ایک دوسرے شہری شہزاد بلوچ کے بقول منگل کو بھی لوگ کام پر نہیں جاسکے بلکہ اپنے گھروں میں محصور رہے۔ جبکہ ٹرانسپورٹ سروسز بھی معطل ہیں۔

کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے مچھ میں سرکاری تنصیبات پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی اور بعد میں دعویٰ کیا کہ شہر ان کے کنٹرول میں ہے۔

تاہم کوئٹہ میں سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ نہ صرف مچھ میں حملوں کا ناکام بنایا گیا بلکہ کلیئرینس آپریشن مکمل ہونے کے بعد معمولات زندگی کو بحال کیا جا رہا ہے۔

مچھ میں گذشتہ دنوں کا احوال شہریوں کی زبانی

پیر کی شب مزدور رہنما اقبال یوسفزئی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا جس نے ’ہمیں ہلا کر رکھ دیا۔ حالانکہ ہمارا گھر شہر کے ان حصوں سے فاصلے پر ہے جہاں حملے ہوئے۔‘

’دھماکے سے کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ خواتین اور بچوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔‘

یہ وہ وقت تھا جب صوبائی نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے ایکس (ٹوئٹر) پر بتایا تھا کہ مچھ میں حملہ آوروں کی جانب سے پہاڑوں سے راکٹ فائر کیے گئے ہیں۔

اقبال یوسفزئی کے بقول دھماکے کے ساتھ بڑے پیمانے پر فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا اور مچھ کی فضا میں ہر طرف گولیوں کی تھرتھراہٹ تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ اس رات شہری رات بھر خوف سے سو نہیں سکے اور آئندہ دو روز شہر ویران رہا۔

مچھ کے ایک اور صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہر میں صورتحال اس قدر سنگین تھی کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ دھماکے اور فائرنگ کے باعث ’دکانیں فوری طور پر بند اور پورا شہر سنسان ہوگیا۔‘

مچھ کے سیاسی اور سماجی رہنما فاروق عزیز کرد نے فون پر بتایا کہ ’پولیس سٹیشن اور دیگر علاقے جو کہ حملوں کی زد میں تھے، ہمارے گھر کے قریب تھے اس لیے وہاں دھماکوں اور فائرنگ کی شدت زیادہ محسوس ہوئی۔‘

’(ہم پیر کی) رات سو نہیں سکے۔ منگل کے روز دن کو بھی سو نہیں سکے۔‘

بدھ کو جب فون پر مچھ کے ایک صحافی سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آج دوسرے روز بھی شہر مکمل ویران ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ منگل اور بدھ کی شب بھی شہر میں فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی رہیں جس کی وجہ سے ’غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔ لوگ اپنے گھروں سے نہیں نکل رہے۔‘

مچھ کے ایک اور شہری سے دن کو ساڑھے گیارہ بجے فون پر رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت انھیں فائرنگ کی آوازیں نہیں سنائی دے رہیں تاہم گذشتہ رات تین بجے تک وقفے وقفے سے فائرنگ کے واقعات پیش آتے رہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت مچھ کے لوگ ایک پریشان کن صورتحال سے دوچار ہیں۔

مچھ اور درّہ بولان کے دیگر علاقوں میں عسکریت پسندوں کی موجودگی اور حملوں کی وجہ سے درّہ بولان کے راستے کوئٹہ اور سندھ جبکہ کوئٹہ اور بلوچستان کے درمیان ٹرینوں اور گاڑیوں کی آمد و رفت معطل رہی۔

مچھ

،تصویر کا ذریعہEPA

حملے میں ایس ایچ او کی ہلاکت: ’حملہ آور تھانے کی چھت پر آگئے تھے‘

جن زخمیوں کو مچھ سے سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا ان میں مچھ پولیس کے کانسٹیبل عبدالحمید شامل تھے۔ وہ پیر میں گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔

عبدالحمید نے بتایا کہ جب حملہ ہوا تو میں اور چند دیگر پولیس اہلکار پولیس تھانے میں تھے۔ ’دھماکوں اور فائرنگ کے درمیان حملہ آوروں میں سے بعض تھانے کی چھت پر پہنچے اور پولیس اہلکاروں سے سرینڈر کرنے اور ہتھیار حوالے کرنے کا کہا۔‘

’ہم لوگوں نے ہتھیار حوالے نہیں کیے بلکہ ان کو کہا کہ ہم جان دیں گے لیکن ہتھیار حوالے نہیں کریں گے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’ہم نے ان کے ساتھ مقابلہ کیا جس دوران تھانے کے ایس ایچ او مارے گئے جبکہ ہم تین، چار اہلکار زخمی ہوئے۔‘

مچھ میں جو صورتحال پیدا ہوئی اس کے حوالے سے کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں کو معلومات کے حصول میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

جب مچھ میں سول انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار سے فون پر رابطہ کیا جاتا رہا تو وہ ہر بار یہی کہتے کہ وہ ’فائرنگ کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ بات نہیں کرسکتے۔‘

تاہم اس کے برعکس مچھ پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او ساجد سولنگی نہ صرف فون اٹینڈ کرتے رہے بلکہ وہ میڈیا کے نمائندوں کو معلومات بھی فراہم کرتے رہے۔

مچھ تھانے پر حملہ آوروں کے پہنچنے سے قبل جب رات کو میں نے ان سے ایک بجے کے قریب فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے نہ صرف فون اٹینڈ کیا بلکہ ریلوے پولیس کے ایک کانسٹیبل کی حملے میں ہلاکت کی تصدیق بھی کی۔

’حملہ آوروں نے ہوٹل کے کمرے میں فائرنگ کر کے زخمی کیا، پھر مسجد جانے کا کہا‘

سول ہسپتال کوئٹہ کے ٹراما سینٹر میں سہراب نامی ایک ڈرائیور کو بھی طبیّ امداد کی فراہمی کے لیے لایا گیا۔

سہراب گولی لگنے سے زخمی ہوئے تھے لیکن ان کی حالت مستحکم تھی۔

سہراب نے بتایا کہ وہ خالی ٹرک کے ساتھ نصیر آباد کی جانب جا رہے تھے جہاں راستے میں کھڑے مسلح افراد ’گاڑیوں کو روک رہے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے ہم یہ سمجھے کہ یہ شاید راہزن ہیں جو کہ گاڑیوں کو لوٹنے کے لیے یہاں کھڑے ہیں۔ لیکن انھوں نے گاڑیوں پر فائرنگ کی۔‘

سہراب کو انھی کی گولی لگی جس سے وہ زخمی ہوئے۔ ’یہ ایک خوفناک منظر تھا جس کو ہم نے دیکھا۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میری زندگی بچ گئی۔‘

حملہ آوروں نے کوئٹہ اور مچھ کے درمیان واقع علاقے کولپور کے ایک ہوٹل پر بھی دھاوا بولا جہاں فائرنگ سے زخمی ہونے والے محمد یاسین نے بتایا کہ پہلے پہر وہ اسے ہوائی فائرنگ سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے مگر پھر ’دس کے قریب مسلح افراد اُس کمرے میں پہنچے اور فائرنگ کی جہاں ہم سو رہے تھے۔‘

یاسین نے بتایا کہ ان کے اور ان کے ایک ساتھی کے ہاتھ میں گولیاں لگیں جس سے دونوں زخمی ہوئے۔ ’مسلح افراد کے پوچھنے پر ہم نے بتایا کہ ہم بلوچ ہیں تو انھوں نے ہمیں ہوٹل خالی کر کے مسجد جانے کا کہا۔ ہم زخمی حالت میں مسجد گئے جہاں سے ہمیں صبح علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد حملہ آوروں نے ہوٹل کے ایک بڑے حصے کو آگ لگائی جس کی لپیٹ میں قریبی دکانیں بھی آگئیں۔

کوئٹہ سے کولپور جانے والے میڈیا کے نمائندوں نے بتایا کہ اس ہوٹل پر تین کنٹینرز کے علاوہ ایک جیپ اور ایک ویگو گاڑی کو بھی نذرآتش کیا گیا تھا۔

ایک کنٹینر میں بیٹریاں تھیں جن کے مالک نے وہاں پہنچنے والے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ان کے ڈیڑھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔

مچھ

،تصویر کا ذریعہEPA

صورتحال کے بارے میں سرکاری حکام کا مؤقف

بلوچستان سی ٹی ڈی پولیس کے مطابق مچھ میں کلئرنس آپریشن کے دوران گیارہ دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ سات یرغمال شہریوں کو بحفاظت بازیاب کروا لیا گیا ہے۔

حکام کی جانب سے بدھ کی سہ پہر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر تحریری بیان میں بتایا گیا کہ آپریشن سی ٹی ڈی اور لیویز کی جانب سے کیا گیا تھا اور اس میں شامل تمام سکیورٹی اہکار محفوظ رہے۔

بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے مچھ پر ہونے والے حملے کے دو تین گھنٹے بعد ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کہا کہ سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی سے حملے کو ناکام بنایا گیا۔

بدھ کو بی بی سی نے ان سے بذریعہ فون مچھ کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے پوچھا کہ آیا اب حالات قابو میں ہیں۔

انھوں نے عسکریت پسندوں کی جانب سے مچھ کا کنٹرول سنبھالنے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’شہر میں کلیئرنس آپریشن مکمل ہوگیا ہے اور حالات معمول کی طرف جا رہے ہیں۔ بہت جلد صورتحال معمول پر آئے گی۔‘

انھوں نے بتایا کہ کوئٹہ اور سبیّ کے راستے ریل سروس اور گاڑیوں کی آمد ورفت بھی جلد بحال ہوجائے گی۔

30 جنوری کی شب آئی ایس پی آر نے ایک بیان جاری کیا جس کے مطابق سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں مچھ پر حملہ کرنے والے نو حملہ آور مارے گئے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق مچھ اور کولپور میں کپمپلیکسز پر حملہ کیا گیا جن کا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے موثر جواب دیا۔ ’حملے کے بعد سکیورٹی فورسز کو فوری طور پر متحرک کیا گیا۔۔۔ سیکورٹی فورسز کی کارروائی میں اب تک تین خود کش بمبار سمیت نو دہشت گرد ہلاک ہوئے۔‘

آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ شدید فائرنگ کے تبادلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چار اہلکار بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے جبکہ دو معصوم شہری بھی ہلاک ہوئے۔

مچھ میں سرکاری تنصیبات پر حملہ بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے اپنی نوعیت کا تیسرا بڑا حملہ ہے۔

اس سے قبل فروری 2022 میں نوشکی اور پنجگور کے شہروں میں کالعدم بی ایل اے کی جانب سے فرنٹیئر کور کے کیمپوں پر اس نوعیت کے حملے کیے گئے تھے۔

تاہم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں سے قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر مذہبی شدت پسند تنظیموں کی جانب سے کوئٹہ، مسلم باغ، لورالائی اور ژوب میں سکیورٹی فورسز کی تنصیبات پر ایسے حملے ہوتے رہے ہیں۔

SOURCE : BBC