SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, سمیع چوہدری
- عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار
-
2 گھنٹے قبل
21 سالہ بے دخلی کے بعد جب بالآخر 10 نومبر1991 کو جنوبی افریقی ٹیم انٹرنیشنل کرکٹ میں لَوٹی تھی، تب سے 22 دسمبر 2024 تک دنیائے کرکٹ میں کوئی ٹیم ایسی نہ تھی جس نے اسے اس کے اپنے گھر میں ون ڈے سیریز وائٹ واش کیا ہو۔
مگر پھر اس کا واسطہ صائم ایوب کے ’نو لُک‘ پاکستان سے پڑا۔
ویسے تو عہد در عہد، یہ ٹیم گھر کے ساتھ ساتھ گھر کے باہر بھی ناقابلِ تسخیر رہی ہے مگر ہوم گراؤنڈز پر اس کے غلبے کا وہ عالم تھا کہ جب 2013 میں مصباح الحق کی ٹیم نے پہلی بار یہاں ون ڈے سیریز جیتی تو وہ یہ ریکارڈ بنانے والی محض پہلی پاکستانی ٹیم ہی نہ تھی بلکہ پہلی ایشیائی ٹیم بھی تھی۔
آسٹریلیا کے علاوہ یہ واحد ٹیم ہے جس کی ون ڈے انٹرنیشنل تاریخ میں فتوحات کا تناسب آج تک 60 فیصد سے زائد رہا ہے اور ہوم گراؤنڈز پر جو سیریز اس نے ہاریں بھی، ان میں بھی کم از کم ایک میچ ہمیشہ جیتا۔ مگر اتوار کی شب محمد رضوان کی ٹیم نے وہ کام کر دکھایا جو ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کی تاریخ میں کبھی کسی سے نہیں ہو پایا۔
اگر دو طرفہ کرکٹ کیلنڈرز پر نظر ڈالی جائے تو آسٹریلیا کا جنوبی افریقہ سے مقابلہ پاکستان سے زیادہ ہی پڑتا ہے اور آسٹریلیا کی ہوم کنڈیشنز بھی جنوبی افریقہ سے بہت مماثلت رکھتی ہیں۔ ان دونوں ٹیموں کے بیچ کئی تاریخی میچز بھی ہوئے ہیں مگر گھر میں کلین سویپ تو اسے آسٹریلیا بھی کبھی نہ کر پایا۔
جبکہ دوسری سمت دیکھیے تو وہ پاکستان ہے کہ جسے آسٹریلیا و جنوبی افریقہ کے دوروں سے ٹھنڈی ہوا کم ہی نصیب ہوتی ہے۔ مگر یہاں محمد رضوان کی ٹیم نے اوپر تلے دونوں ناقابلِ تسخیر حریفوں کے خلاف ون ڈے سیریز جیت لی ہیں۔
پاکستان کو اس خوش نصیبی تک پہنچ پانے کے نمایاں ترین کردار صائم ایوب رہے ہیں جو کریز پر آ کر، نوّے کی دہائی کا ناسٹلجیا بڑھاتے ہیں جب وہ سعید انور کی مانند، اپنی برق رفتار کلائیوں اور شاندار ٹائمنگ سے سکوائر باؤنڈریز عبور کرتے ہیں۔
کلائی کا استعمال کرنے والے بائیں ہاتھ کے بلے بازوں کے کھیل میں جو فطری خوبصورتی رچی ہوتی ہے، وہ تو صائم کے سٹروک پلے میں نکھر کر اُبھرتی ہی ہے مگر جو سنجیدگی اور سادگی اُن کی بیٹنگ کا حصہ ہے، وہ بھی قابلِ رشک ہے۔
پاکستان کی دوہری خوش بختی ہے کہ اسے نہ صرف ایسا بامزاج بلے باز دستیاب ہوا جو میچ کے لحاظ سے اپنی نفسیات بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اپنی طبیعت میں بھی اتنا منکسر ہے کہ ایسی تر و تازہ اننگز، حیران کن بولنگ، بے دریغ فیلڈنگ اور پلئیر آف میچ ایوارڈ کے بعد بھی اپنی کاوش بارے لفظ خرچنے سے گریز کرتا ہے اور فقط اس ٹیم کا حصہ ہونے پر ہی نازاں ہے۔
اس تاریخی جیت میں سبھی نے اپنے اپنے تئیں بہترین کردار نبھایا۔ مگر صائم زیادہ ستائش کے مستحق اس امر سے ٹھہرتے ہیں کہ ان کنڈیشنز میں پاکستان کے دیرینہ درد کی دوا وہی لائے ہیں۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
کیونکہ پاکستانی بولنگ ہر دور میں اس قابل رہی ہے کہ اپنے حصے کی وہ لڑائی لڑ سکے جو یہاں شاہین آفریدی، نسیم شاہ، حارث رؤف، ابرار احمد، محمد حسنین اور سفیان مقیم نے لڑی۔ المیہ پاکستان کو ہمیشہ اپنی بلے بازی سے درپیش رہا ہے جو ان کنڈیشنز سے مطابقت پاتے پاتے سیریز ہی ختم کر بیٹھتی ہے۔
صائم ایوب کی بلے بازی پاکستان کو راس رہی کہ ان کنڈیشنز میں کامیابی کے لیے لازم کٹ، پُل اور سویپ شاٹس صرف لفظی اعتبار سے ہی نہیں، معنوی اعتبار سے بھی ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہیں کہ یہ دشوار شاٹس انھوں نے ربادا، یانسن اور مپھاکا کی برق رفتار بولنگ پر بھی سہولت و مہارت سے کھیلے۔
محمد رضوان کی قائدانہ صلاحیتوں کی خوبی رہی کہ میچ کی نبض پر پوری طرح ہاتھ جمائے رکھا اور جب جب جنوبی افریقی بیٹنگ نے ہاتھ پیر مارنے کی کوشش کی، تب ان کے ہاتھ پاؤں پھولے نہیں بلکہ دباؤ کے ہنگام اپنے بولنگ وسائل کو عمدگی سے برتا۔
پچھلے برس ون ڈے ورلڈ کپ سے جب یہ ٹیم بے حال ہو کر لوٹی تھی، تب ایسی کایا کلپ کی تو امید بھی کسی کو نہ تھی کہ اس ورلڈ کپ کے بعد اگلا پورا سال جب پاکستان کو ون ڈے کرکٹ کھیلنا ہی نہ تھی تو پھر بھلا کاہے کی کایا کلپ؟
مگر اس ٹیم نے اوپر تلے تین ون ڈے سیریز جیت کر پہلی بار اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ’ناقابلِ پیشگوئی‘ ٹیم ہے۔
چیمپئینز ٹرافی سے عین پہلے جس طرح یہ ٹیم ون ڈے کرکٹ میں برتری کی جانب بڑھ رہی ہے، گویا اب یہ کوئی ’unpredictable‘ پاکستان نہیں بلکہ صائم ایوب کا ’no look‘ پاکستان ہے جو ہر جیت کو ایک ’no look‘ جیت سمجھ کر آگے بڑھے جاتا ہے۔
SOURCE : BBC