Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں سرجیکل سٹرائیک، میزائل حملہ یا کچھ اور: پہلگام حملے کے بعد کیا...

سرجیکل سٹرائیک، میزائل حملہ یا کچھ اور: پہلگام حملے کے بعد کیا انڈیا پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کر سکتا ہے؟

4
0

SOURCE :- BBC NEWS

انڈیا میں پاکستان مخالف مظاہرے

،تصویر کا ذریعہAFP

  • مصنف, سوتک بسواس
  • عہدہ, نامہ نگار برائے انڈیا، بی بی سی
  • 8 منٹ قبل

پہلگام میں منگل کی دوپہر ہونے والی خونریزی کو، جس میں کم از کم 26 سیاح ہلاک ہوئے، سنہ 2019 کے بعد سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی سب سے مہلک کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔

مارے جانے والے فوجی یا سکیورٹی اہلکار نہیں بلکہ انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کی سب سے خوبصورت وادی پہلگام میں چھٹیاں گزارنے کے لیے آنے والے عام شہری تھے اور یہی بات اس حملے کو سفاکیت کا رنگ دینے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا نپا تُلا اقدام بھی بناتی ہے جس کا مقصد بظاہر اِس متنازع خطے میں زندگی کو معمول پر لانے کی غرض سے انڈین حکومت کی برسوں پر محیط کوششوں کو تار تار کرنا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انھی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انڈیا کا اس حملے پر ردعمل نا صرف ماضی کی مثالوں بلکہ اندرونی دباؤ کی بنیاد پر بھی طے ہونے کا امکان ہے۔

ابتدائی طور پر انڈیا کی جانب سے جو اقدامات کیے گئے ہیں ان میں دونوں ممالک کی مرکزی سرحدی گزرگاہ یعنی واہگہ بارڈر کی بندش، سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور سفارتکاروں کی بیدخلی شامل ہیں۔

زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ملک کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ‘سخت جواب’ دینے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ صرف اس حملے میں ملوث مجرموں کے خلاف کارروائی کی جائے گی بلکہ پس پردہ رہ کر یہ کارروائی کروانے والوں منصوبہ سازوں کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الوقت سوال یہ نہیں ہے کہ کیا آیا انڈیا کی جانب سے کوئی عسکری ردعمل دیا جائے گا یا نہیں بلکہ زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ کب، کتنا نپا تلا اور کس قیمت پر ہو گا۔

انڈیا کے عسکری تاریخ دان سری ناتھ راگھون نے بی بی سی کو بتایا ‘ہم انڈیا کی جانب سے ایک سخت ردعمل کا امکان دیکھتے ہیں، جس کا مقصد نا صرف انڈین عوام بلکہ پاکستان میں موجود عناصر کو پیغام دینا ہو گا۔ 2016 اور خاص طور پر 2019 کے بعد سے سرحد پار فضائی حملوں کی صورت میں جوابی کارروائی کی حد مقرر کی جا چکی ہے۔‘

انڈین سکیورٹی فورسز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

ان کا کہنا ہے کہ ’اس بار انڈین حکومت نے کے لیے اِس سے کسی کم پیمانے کی کارروائی کرنا مشکل ہو گا۔ مگر پاکستان بھی ممکنہ طور پر جواب دے گا، جیسا کہ اس نے ماضی میں دیا تھا۔ اور اس سب میں واحد خطرہ، ہمیشہ کی طرح، دونوں ممالک کی جانب سے حساب کتاب کا غلط اندازہ ہو گا۔’

سری ناتھ راگھون کا اشارہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف سنہ 2016 اور سنہ 2019 میں کی گئی دو بڑی سرحد پار جوابی کارروائیوں کی طرف تھا۔

یاد رہے کہ ستمبر 2016 میں اوڑی حملے کے بعد، جس میں 19 انڈین فوجی مارے گئے تھے، انڈیا نے لائن آف کنٹرول کے پار مبینہ ’سرجیکل سٹرائیکس‘ کی تھیں جن میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موجود عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسی طرح سنہ 2019 میں پلوامہ میں نیم فوجی دستوں کے کم از کم 40 اہلکاروں کے مارے جانے کے بعد انڈیا نے بالاکوٹ میں عسکریت پسندوں کے مبینہ کیمپ کو نشانہ بنایا تھا۔ سنہ 1971 کی جنگ کے بعد سے یہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کی سرحدی حدود میں اس نوعیت کا پہلا حملہ تھا۔ پاکستان کی جانب سے اس کا جواب دیا گیا اور انڈین طیارے کو مار گرایا گیا جبکہ انڈین پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کر لیا گیا۔

اس موقع پر فریقین نے طاقت کا مظاہرہ تو کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ مکمل جنگ سے گریز بھی کیا۔

اس واقعے کے دو سال بعد، سنہ 2021 میں، انڈیا اور پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا جو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے حملوں کے باوجود بڑی حد تک برقرار رہی ہے۔

خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا خیال ہے کہ ’پہلگام میں ہونے والے تازہ ترین حملے میں بڑی تعداد میں انڈین شہریوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اگر دہلی کسی بھی سطح پر اس معاملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا تعین کرتا ہے یا محض یا فرض بھی کر لیتا ہے کہ پاکستان اس میں ملوث ہو سکتا ہے تو انڈیا کی جانب سے عسکری ردعمل دیے جانے کے قوی امکانات ہیں۔‘

انڈیا پاکستان سرحد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘انڈیا کی جانب سے اس طرح کے ردعمل دیے جانے کا وہاں کی حکومت کو سیاسی فائدہ ہو گا، کیونکہ انڈیا کے اندر پاکستان کو زبردست اور طاقت سے بھرپور جواب دینے کے لیے عوامی دباؤ ہو گا۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘اگر انڈیا کی جانب سے جوابی کارروائی کے ذریعے دہشت گردوں کے اہداف کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ دشمن کے خلاف ڈیٹرنس بحال ہو گی اور دوسرا فائدہ انڈیا مخالف خطرے میں کمی کی صورت میں ہو گا۔ مگر جوابی کارروائی کا نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ سنگین بحران سر اٹھا سکتا ہے اور یہاں تک کہ براہ راست تصادم کا خطرہ ہو سکتا ہے۔’

سو انڈیا اب کیا کر سکتا ہے؟

امریکہ کی ایلبنی یونیورسٹی کے کرسٹوفر کلیری کا کہنا ہے کہ ‘خفیہ کارروائیاں قابل قبول ہیں لیکن یہ ڈیٹرنس کی بحالی کی سیاسی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں انڈیا کے پاس دو ممکنہ راستے رہ جاتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ سنہ 2021 سے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی ہے اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی سرحد پار سے ہونے والی فائرنگ کا بھرپور جواب دینے کے لیے اجازت دے سکتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ سنہ 2019 کی طرح فضائی حملے یا روایتی کروز میزائل حملوں کا امکان بھی موجود ہے، جن میں سے ہر ایک میں جوابی کارروائی کا خطرہ ہے جیسا کہ بالاکوٹ حملے کے بعد دیکھا گیا تھا۔

جنوبی ایشیا کی سیاست کا مطالعہ کرنے والے کرسٹوفر کلیری نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘کوئی بھی راستہ خطرے سے خالی نہیں ہے۔ امریکہ بھی پریشان ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس بحران کو حل کرنے میں مدد کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔’

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کسی بھی بحران کی صورت میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ دونوں مُمالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور یہ حقیقت فوجی یا سیاسی ہر فیصلے پر حاوی ہوتی ہے۔

سری ناتھ راگھون کا کہنا ہے کہ ’جوہری ہتھیار ایک خطرہ اور جنگ کی جانب بڑھنے والے قدموں کے لیے ایک رکاوٹ بھی ہیں، جو دونوں اطراف کے فیصلہ سازوں کو احتیاط کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پاکستان جوابی کارروائی کر سکتا ہے اور اس کے بعد وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ اب اُسے کس جانب جانا ہے۔‘

مودی

،تصویر کا ذریعہPTI

انھوں نے کہا کہ ‘ہم نے دوسرے تنازعات میں بھی یہی رجحان دیکھا ہے، جیسے اسرائیل اور ایران کے درمیان حملے، جس کے بعد کشیدگی کم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ لیکن خطرہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ چیزیں ویسی نہیں ہو پائیں گی کہ جیسا سوچا جا رہا ہے۔’

مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ ‘پلوامہ بحران کا ایک سبق یہ ہے کہ ‘ہر ملک محدود جوابی کارروائی کرنے میں ہی سہولت اور آسانی سمجھتا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘انڈیا کو جوابی کارروائی کے سیاسی اور سٹریٹجک فوائد کو سنگین بحران یا تنازعے کے خطرے کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔’

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا خیال ہے کہ ’اس بار کشیدگی میں اضافہ ممکن ہے اور انڈیا سنہ 2016 کی طرح محدود ‘سرجیکل سٹرائیک’ پر غور کر سکتا ہے۔‘

انور قرقاش ڈپلومیٹک اکیڈمی اور ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو حسین حقانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘انڈیا کے نقطہ نظر سے اس طرح کے حملوں کا فائدہ یہ ہے کہ ان کا دائرہ کار محدود ہے، اس لیے پاکستان کو جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے اور پھر بھی وہ انڈین عوام کو دکھانے کے لیے ایسا کرتے ہیں کہ انڈیا نے جواب دیا ہے اور ایک سخت کارروائی کی ہے۔’

ان کے مطابق ’لیکن اس طرح کے حملے پاکستان کی جانب سے بھی جوابی کارروائی کی دعوت دے سکتے ہیں، جس کا استدلال ہے کہ جذباتی ردعمل دیتے ہوئے اس پربغیر کسی تحقیقات یا ثبوت کے الزام لگایا جا رہا ہے۔‘

انڈیا جو بھی راستہ اختیار کرے اور پاکستان جو بھی جواب دے، ہر قدم خطرے سے بھرا ہوا ہے۔ کشیدگی بڑھنے کا خطرہ منڈلا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی کشمیر میں امن کے قیام کی کوشش مزید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

سری ناتھ راگھون کے مطابق اس کے ساتھ ہی انڈیا کو ان سکیورٹی ناکامیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے جن کی وجہ سے یہ حملہ ہوا۔

‘سیاحتی سیزن کے عروج پر اس طرح کا حملہ ایک سنگین کوتاہی کی نشاندہی کرتا ہے، خاص طور پر ایک مرکز کے زیر انتظام علاقے میں جہاں وفاقی حکومت براہ راست امن و امان کو کنٹرول کرتی ہے۔’

SOURCE : BBC