Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں بٹگرام میں پسند کی شادی کے 12 سال بعد خاتون کا قتل،...

بٹگرام میں پسند کی شادی کے 12 سال بعد خاتون کا قتل، چار بھائی گرفتار: پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟

4
0

SOURCE :- BBC NEWS

خاتون، قتل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, محمد زبیر خان
  • عہدہ, صحافی
  • 6 گھنٹے قبل

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام میں پسند کی شادی کے 12 سال بعد تین بچوں کی ماں کے قتل کا انکشاف قبر کشائی کے بعد پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں ہوا۔

شوہر کی درخواست پر ہوئے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاتون کی موت گلا گھونٹنے سے ہوئی۔

یہ المناک واقعہ رواں مہینے نو اپریل کو پیش آیا جس میں خاتون کو مبینہ طور پر قتل کر کے لاش کو خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا گیا تھا۔

قتل کے دو دن بعد شوہر کی درخواست پر پولیس نے اپنی تفتیش کے نتیجے میں قبر کشائی کے بعد مجسٹریٹ کی موجودگی میں پوسٹ مارٹم کروایا۔

بٹگرام پولیس کے مطابق اب تک سات ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے چار مقتولہ کے بھائی ہیں اور تین جرگے کے رکن ہیں جبکہ ایک شخص مفرور ہے جس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

مقتولہ کے شوہر نے پولیس کو بتایا ہے کہ پسند کی شادی کے بعد ایک مقامی جرگے نے دونوں خاندانوں کے درمیان صلح کے لیے آٹھ لاکھ روپے بھی وصول کیے تھے مگر فریقین کے بیچ کبھی صلح نہیں ہو سکی تھی۔

قبر کشائی کب اور کیسے ہوئی؟

12 اپریل کو ضلع بٹگرام کے تھانہ کوزہ بانڈہ میں درج شکایت میں خاتون کے شوہر نے دعویٰ کیا کہ 9 اپریل کو اس کی بیوی کو قتل کر کے دفن کیا گیا اور چار سالہ بیٹی کو خاتون کے میکے والوں نے روک کر رکھا ہے۔

شوہر کی اس شکایت کو ابتدائی طور پر روزنامچے میں درج کر کے تفتیشی افسر کو کارروائی کے لیے کہا گیا۔

تفتیشی افسر نے کارروائی کرتے ہوئے چار سالہ بچی کو بر آمد کر کے عدالت میں پیش کیا اور علاقہ مجسٹریٹ سے قبر کشائی کے لیے اجازت طلب کی جس کے بعد ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کو پوسٹ مارٹم کی ہدایت جاری کی گئی۔

15 اپریل کو پہلے قبر کشائی اور پھر پوسٹ مارٹم کیا گیا جس کی رپورٹ کے مطابق مقتولہ کی موت کی وجہ گلا دبانے پر سانس بند ہونا تھی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد شوہر کی درخواست پر پولیس نے باقاعدہ مقدمہ درج کر کے کارروائی کا آغاز کیا۔

خاتون، قتل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’دو سال قبل میری اہلیہ اور بچوں کو لے گئے‘

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

ایف آئی آر کے مطابق مدعی مقدمہ نے 12 سال قبل کورٹ میرج کی تھی اور ان کے تین بچے ہیں۔

اس میں دعوی کیا گیا کہ ’کورٹ میرج کی وجہ سے میرے سسرال والے مجھ سے اور میری بیوی سے سخت ناراض تھے۔ اس دوران راضی نامے کے لیے کافی جرگے ہوئے۔ جرگے والوں نے راضی نامے کے لیے مبلغ آٹھ لاکھ روپے بھی لیے لیکن راضی نامہ نہیں کروایا۔‘

درج مقدمے کے مطابق ’دو سال قبل میرے گھر، میرے بیوی کے ماموں اور ان کا بیٹا آئے اور کہا کہ وہ اپنی ذمہ داری پر میرے بیوی بچوں کو سسرال لے کر جاتے ہیں اور ملوا کر واپس لائیں گے۔ وہ میری بیوی اور بچوں کو لے کر سسرال چلے گئے مگر چار، پانچ روز بعد میرے دو بیٹوں کو لا کر واپس کر دیا لیکن میری بیوی اور بیٹی کو زبردستی روک لیا اور کہا کہ راضی نامہ نہیں ہو سکا۔‘

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ اس دوران کافی جرگے کیے گئے مگر خاتون کے اہلخانہ میں سے کوئی بھی بات ماننے کو تیار نہ تھا۔

ایف آئی آر میں مدعی مقدمہ نے کہا ہے کہ ’مورخہ 11 اپریل کو مجھے پتا چلا کہ مورخہ 9 اپریل کو میری بیوی کے بھائیوں نے جرگہ ممبران کی ایما پر میری بیوی کو قتل کر کے دفن کر دیا اور میری بیٹی کو (اپنے پاس) روک رکھا ہے۔‘

’کچھ لوگوں نے رات کے وقت جنازہ پڑھا‘

اس مقدمے کے تفتیشی افسر کابل خان نے بتایا کہ جب اس حوالے سے تفتیش شروع ہوئی تو سب سے پہلے یہ تعین کرنا تھا کہ درخواست گزار نے جو دعوے کیے ہیں، وہ سچ بھی ہیں یا نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس کے لیے مذکورہ علاقے میں تفتیش کا آغاز کیا گیا اور یہ معلومات حاصل کی گئیں کہ نو اپریل کو علاقے میں کوئی جنازہ ہوا یا نہیں۔ انھیں معلوم ہوا کہ علاقے میں نو اپریل کی رات ایک جنازہ ہوا۔ ’علاقے کی روایات کے برعکس اس جنازے کی زیادہ تشہیر نہیں کی گئی۔ بس کچھ لوگوں نے رات کے وقت جنازہ پڑھا تھا۔‘

کابل خان کا کہنا تھا کہ ’جنازے میں بہت کم لوگ تھے جبکہ تدفین کے وقت تو گنے چنے لوگ ہی تھے۔ اب اس میں مقتولہ کے قریبی رشتہ داروں سے بھی نہیں پوچھا جا سکتا تھا ورنہ وہ الرٹ ہو جاتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مقتولہ کی قبر کی نشاندہی کے بعد قبر کشائی کی اجازت لی گئی اور پھر پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے پر قتل کا مقدمہ درج ہوا۔

کابل خان کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ میں گلا دبانے کے علاوہ تشدد کے نشانات بھی پائے گئے ہیں۔

کابل خان کا کہنا تھا کہ مقتولہ دو سال سے اپنے میکے میں رہائش پذیر تھی، جہاں پر ان کے چار بھائی ایک بڑی عمارت کے الگ الگ حصوں میں مقیم تھے۔

’واقعہ اس عمارت کے اندر پیش آیا اور حالات و واقعات بھی یہ ہی بتا رہے ہیں کہ خاتون کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، اس کے ذمہ دار یہ چار بھائی ہی ہو سکتے ہیں۔‘

خاتون، قتل

’جس ڈر سے دو سال تک خاموش رہا، آخر وہی ہو گیا‘

مقتولہ کے شوہر کا کہنا تھا کہ کورٹ میرج کے بعد مجھے اندازہ تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اسی لیے انھوں نے فی الفور صلح کی کوشش شروع کر دی تھی۔

’اپنے سسرال والوں کو ہر طرح سے باور کروانے کی کوشش کی کہ ہم نے نکاح کیا اور علاقے ہی میں موجود ہیں۔ آپ کا دل خفا ہوا ہے تو میں ہر طرح سے معافی مانگنے کو تیار ہوں۔‘

شوہر کے مطابق انھوں نے صلح کا ہر ممکن طریقہ اختیار کیا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ ’یہاں تک کہ اپنی اہلیہ کے ماموں اور کزن کی ذمہ داری پر اپنے بیوی بچوں کو ان کے گھر بھی بھیجا کہ شاید اس طرح ان کا دل نرم ہو جائے اور وہ صلح کر لیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مگر بدقسمتی سے میں دھوکے میں مارا گیا اور اس کے دو سال تک میں اپنی بیٹی اور اہلیہ کو دیکھنے کے لیے بھی ترس گیا تھا۔ ’اس دوران جو اطلاعات مجھے ملتی رہیں، ان کے مطابق میری اہلیہ اور بیٹی کو بہت برے حالات میں رکھا گیا تھا۔‘

مقتولہ کے شوہر کا کہنا تھا کہ اس دوران انھوں نے بہت جرگے کیے کہ ان کی بیوی اور بیٹی کو گھر بھیج دیا جائے۔

’مگر مجھے کہا جاتا رہا کہ اگر میں نے پولیس کی مدد لینے کی کوشش کی تو وہ میری اہلیہ اور بیٹی کو نقصاں پہنچا دیں گے جس پر میں جرگے ہی کے ذریعے سے کوشش کرتا رہا۔ جس ڈر سے دو سال تک خاموش رہا، آخر وہ ہی ہو گیا۔‘

نام نہاد غیرت پر قتل کے واقعات میں اضافہ

غیر سرکاری ادارے ایس ایس ڈی او کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2024 میں پاکستان میں نام نہاد غیرت پر 547 قتل ہوئے تاہم اعدادوشمار میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کتنے ملزماں گرفتار ہوئے یا انھیں سزا ہوئی۔

گزشتہ روز بھی کوہستان میں دوہرے قتل کا ایک المناک واقعہ پیش آیا۔ کوہستان پولیس کے مطابق مقتولین لڑکا اور لڑکی آپس میں ماموں زاد تھے، جن کو لڑکی کے والد نے اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کیا اور پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔

انسانی حقوق کے وکیل عماں ایوب ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور اکثر انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے ہیں۔

عماں ایوب ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اکثر اوقات شہادتیں، گواہی دستیاب نہ ہونے پر ملزماں عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں یا ضمانتیں حاصل کر کے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔

SOURCE : BBC