Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں ’انڈین اقدامات کا ترکی بہ ترکی جواب‘ دینے کے لیے پاکستان میں...

’انڈین اقدامات کا ترکی بہ ترکی جواب‘ دینے کے لیے پاکستان میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس آج

4
0

SOURCE :- BBC NEWS

انڈیا پاکستان کشیدگی

،تصویر کا ذریعہAFP

پہلگام میں منگل کی دوپہر ہونے والی خونریزی، جس میں کم از
کم 26 سیاحوں کو ہلاک کیا گیا، کو سنہ 2019 کے بعد سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر
میں ہونے والی سب سے مہلک عسکریت پسندوں کی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔

مارے جانے والے فوجی یا سکیورٹی
اہلکار نہیں بلکہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی سب سے خوبصورت وادی، پہلگام، میں
چھٹیاں گزارنے کے لیے آنے والے عام شہری تھے۔ اور یہی بات اس حملے کو سفاکیت کا
رنگ دینے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا نپا تُلا اقدام بھی بناتی ہے جس کا مقصد بظاہر اِس
متنازع خطے میں زندگی کو معمول پر لانے کی غرض سے انڈین حکومت کی برسوں پر محیط
کوششوں کو تار تار کرنا ہے۔

ماہرین کا
کہنا ہے کہ انھی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انڈیا کا اس حملے پر ردعمل ناصرف ماضی
کی مثالوں بلکہ ملک کے اندر سے سامنے آنے والے دباؤ کی بنیاد پر طے پائے جانے کا
امکان ہے۔

ابتدائی طور
پر انڈیا کی جانب سے بہت سے جوابی اقدامات کیے گئے ہیں جیسا کہ دونوں ممالک کے بیچ
مرکزی گزرگاہ یعنی واہگہ بارڈر کی بندش، سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور سفارتکاروں
کی بیدخلی۔

مزید اہم بات یہ ہے کہ ملک کے
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ’سخت جواب‘ دینے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ صرف اس حملے میں ملوث مجرموں کے خلاف کارروائی کی جائے
گی بلکہ پس پردہ رہ کر یہ کارروائی کروانے والوں (ماسٹر مائنڈز) کو بھی نہیں چھوڑا
جائے گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی
الوقت سوال یہ نہیں ہے کہ کیا آیا انڈیا کی جانب سے کوئی فوجی ردعمل دیا جائے گا
یا نہیں۔ بلکہ زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ کب ہو گا، کتنا کیلکیولیٹڈ ہو گا اور کس قیمت
پر۔

انڈیا کے فوجی تاریخ دان سری ناتھ
راگھون نے بی بی سی کو بتایا ’ہم انڈیا کی جانب سے ایک سخت ردعمل کا امکان رکھتے
ہیں، جس کا مقصد ناصرف انڈین عوام بلکہ پاکستان میں موجود ایکٹرز کو پیغام دینا ہو
گا۔ خاص طور پر 2019 کے بعد سے سرحد پار فضائی حملوں کی صورت میں جوابی کارروائی
کی حد مقرر کی جا چکی ہے۔‘

اور اس بار
انڈین حکومت نے کے لیے اِس سے کسی کم لیول کی کارروائی کرنا مشکل ہو گا۔ مگر
پاکستان بھی ممکنہ طور پر جواب دے گا، جیسا کہ اس نے ماضی میں دیا تھا۔ اور اس سب
میں واحد خطرہ، ہمیشہ کی طرح، دونوں ممالک کی جانب سے حساب کتاب کا غلط اندازہ
(مِس کیلکیولیشن) ہو گا۔‘

Pakistan India

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سری ناتھ راگھون کا اشارہ انڈیا
کی جانب سے پاکستان کے خلاف سنہ 2016 اور سنہ 2019 میں کی گئی دو بڑی سرحد پار
جوابی کارروائیوں کی طرف تھا۔

یاد رہے کہ ستمبر 2016 میں اڑی
حملے کے بعد، جس میں 19 انڈین فوجی مارے گئے تھے، انڈیا نے لائن آف کنٹرول کے پار
سرجیکل سٹرائیکس کی تھیں۔ اور انڈیا کے مطابق ان سٹرائیکس میں پاکستان کے زیر
انتظام کشمیر میں موجود عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسی طرح سنہ 2019 میں پلوامہ میں
نیم فوجی دستوں کے کم از کم 40 اہلکاروں کے مارے جانے کے بعد انڈیا نے بالاکوٹ میں
مبینہ عسکریت پسندوں کے مبینہ کیمپ کو نشانہ بنایا تھا۔سنہ 1971 کی جنگ کے بعد سے یہ انڈیا کی جانب سے پاکستان
کی سرحدی حدود میں اس نوعیت کا پہلا حملہ تھا۔ پاکستان کی جانب سے اس کا جواب دیا
گیا اور انڈین طیارے کو مار گرایا گیا جبکہ انڈین پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کر لیا
گیا۔ دونوں فریقوں نے طاقت کا مظاہرہ تو کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ مکمل جنگ سے
گریز بھی کیا۔

اس واقعے کے دو سال بعد، سنہ 2021
میں، انڈیا اور پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔

خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار مائیکل
کوگل مین کا خیال ہے کہ پہلگام میں ہونے والے تازہ ترین حملے میں بڑی تعداد میں
انڈین شہریوں کو نشانہ بنائے جانا انڈیا کی جانب سے فوجی ردعمل دیے جانے کے قوی
امکان کی نشاندہی کرتا ہے، اگر دہلی کسی بھی سطح پر اس معاملے میں پاکستان کے ملوث
ہونے کا تعین کرتا ہے یا محض یا فرض بھی کر لیتا ہے کہ پاکستان اس میں ملوث ہو
سکتا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ
’انڈیا کی جانب سے اس طرح کے ردعمل دیے جانے کا وہاں کی حکومت کو سیاسی فائدہ ہو
گا، کیونکہ انڈیا کے اندر پاکستان کو زبردست اور طاقت سے بھرپور جواب دینے کے لیے
عوامی دباؤ ہو گا۔‘

انھوں نے
مزید کہا کہ ’اور اگر انڈیا کی جانب سے جوابی
کارروائی کے ذریعے دہشت گردوں کے اہداف کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا جاتا ہے تو
اس کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ دشمن کے خلاف ڈیٹرنس بحال ہو گی اور دوسرا فائدہ
انڈیا مخالف خطرے میں کمی کی صورت میں ہو گا۔ مگر جوابی کارروائی کا نقصان یہ ہو
سکتا ہے کہ سنگین بحران سر اٹھا سکتا ہے اور یہاں تک کہ براہ راست تصادم کا خطرہ
ہو سکتا ہے۔‘

India Pakistan

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈیا اب کیا کر سکتا
ہے؟

امریکہ کی البانی یونیورسٹی کے
کرسٹوفر کلیری کا کہنا ہے کہ ’خفیہ کارروائیاں قابل قبول ہیں لیکن یہ ڈیٹرنس کی
بحالی کی سیاسی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سے انڈیا کے
پاس دو ممکنہ راستے رہ جاتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ سنہ 2021
میں ایل او سی پر جنگ بندی جاری ہے اور انڈین وزیر اعظم نریندر مودی سرحد پار سے
ہونے والی فائرنگ کا بھرپور جواب دینے کے لیے اجازت دے سکتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ سنہ 2019 کی
طرح فضائی حملے یا روایتی کروز میزائل حملوں کا امکان بھی موجود ہے، جن میں سے ہر
ایک میں جوابی کارروائی کا خطرہ ہے جیسا کہ اس کے بعد ہونے والی فضائی جھڑپوں میں
دیکھا گیا تھا۔

جنوبی ایشیا کی سیاست کا مطالعہ
کرنے والے مسٹر کلیری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کوئی بھی راستہ خطرے سے خالی نہیں
ہے۔ امریکہ بھی پریشان ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ بحران سے نمٹنے میں مدد کرنے کے
لیے تیار نہ ہو۔‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کسی
بھی بحران کی صور میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ دونوں مُمالک جوہری ہتھیاروں سے لیس
ہیں اور یہ حقیقت فوجی یا سیاسی ہر فیصلے پر حاوی ہوتی ہے۔

سری ناتھ راگھون کا کہنا ہے کہ ’جوہری
ہتھیار ایک خطرہ اور جنگ کی جانب بڑھنے والے قدموں کے لیے ایک رکاوٹ بھی ہیں، جو دونوں
اطراف کے فیصلہ سازوں کو احتیاط کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پاکستان
جوابی کارروائی کر سکتا ہے اور اس کے بعد وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ اب اُسے کس جانب
جانا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے دوسرے
تنازعات میں بھی یہی رجحان دیکھا ہے، جیسے اسرائیل اور ایران کے درمیان حملے، جس
کے بعد کشیدگی کم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ لیکن خطرہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ
چیزیں ویسی نہیں ہو پائیں گی کہ جیسا ساچا جا رہا ہے۔‘

کوگلمین کہتے ہیں کہ ’پلوامہ
بحران کا ایک سبق یہ ہے کہ ’ہر ملک محدود جوابی کارروائی کرنے میں ہی سہولت اور
آسانی سمجھتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کو جوابی
کارروائی کے سیاسی اور سٹریٹجک فوائد کو سنگین بحران یا تنازعے کے خطرے کے ساتھ دیکھنا
ہوگا۔‘

Pakistan

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا خیال ہے کہ ’اس بار کشیدگی میں اضافہ ممکن ہے کیونکہ انڈیا سنہ 2016 کی طرح محدود ’سرجیکل سٹرائیک‘ پر غور کر سکتا ہے۔‘

انور قرقاش ڈپلومیٹک اکیڈمی اور ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو حقانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انڈیا کے نقطہ نظر سے اس طرح کے حملوں کا فائدہ یہ ہے کہ ان کا دائرہ کار محدود ہے، اس لیے پاکستان کو جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے اور پھر بھی وہ انڈین عوام کو دکھانے کے لیے ایسا کرتے ہیں کہ انڈیا نے جواب دیا ہے اور ایک سخت کارروائی کی ہے۔‘

لیکن اس طرح کے حملے پاکستان کی جانب سے بھی جوابی کارروائی کی دعوت دے سکتے ہیں، جس کا استدلال ہے کہ بغیر کسی تحقیقات یا ثبوت کے اس پر گھٹنے ٹیکنے والے رد عمل کے طور پر الزام لگایا جا رہا ہے۔

انڈیا جو بھی راستہ اختیار کرے اور پاکستان جو بھی جواب دے، ہر قدم خطرے سے بھرا ہوا ہے۔ کشیدگی بڑھنے کا خطرہ منڈلا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی کشمیر میں امن کے قیام کی کوشش مزید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی انڈیا کو ان سکیورٹی ناکامیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے جن کی وجہ سے یہ حملہ ہوا۔ راگھون نے کہا کہ ’سیاحتی سیزن کے عروج پر اس طرح کا حملہ ایک سنگین کوتاہی کی نشاندہی کرتا ہے، خاص طور پر ایک مرکز کے زیر انتظام علاقے میں جہاں وفاقی حکومت براہ راست امن و امان کو کنٹرول کرتی ہے۔‘

SOURCE : BBC