Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں زمزمہ توپ کا آخری معرکہ: کئی ماہ محاصرے کے بعد رنجیت سنگھ...

زمزمہ توپ کا آخری معرکہ: کئی ماہ محاصرے کے بعد رنجیت سنگھ کا ملتان پر وہ قبضہ جس سے پنجاب پر افغان حکمرانی ختم ہوئی

5
0

SOURCE :- BBC NEWS

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, وقارمصطفیٰ
  • عہدہ, صحافی و محقق
  • ایک گھنٹہ قبل

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر ملتان میں بہاءالدین زکریا کے مزار کے داخلی دروازے کے باہر موجود کچھ قبروں میں ایک قبر نواب مظفر خان سدوزئی کی بھی جو سنہ 1757 سے 1818 تک ملتان کے حکمران تھے۔

پال اولڈ فیلڈ نے ’وکٹوریا کراسز آن دی ویسٹرن فرنٹ‘ میں لکھا ہے کہ پانچ ہزار سال پرانا ملتان شہر قرون وسطیٰ کے اسلامی ہندوستان میں ایک اہم تجارتی مرکز تھا۔

تاریخی حوالوں کے مطابق 11ویں اور 12ویں صدی میں ملتان میں کئی صوفی بزرگ آئے اور اِسی نسبت سے یہ ’اولیا کا شہر‘ کہلوایا۔ آج بھی یہاں کئی صوفی مزارات موجود ہیں، جن میں سے ایک حضرت بہاءالدین زکریا کا مزار ہے۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ملتان کی دولت اِس پر حملوں کا باعث

مغلوں کی جانب سے ملتان پر سنہ 1557 میں قبضے کے بعد اس شہر نے 200 سال امن و خوشحالی کے گزارے اور اس دورانیے میں یہ ایک اہم زرعی اور تجارتی مرکز بن گیا۔

اپنی کتاب ’اے بریف ہسٹری آف دی سکھس‘ میں دیوندر سنگھ مانگٹ بتاتے ہیں کہ سندھ، چناب، راوی اور ستلج دریاؤں سے سیراب ہونے والی ملتان کی زمین بہت زرخیز تھی جو سالانہ 13 لاکھ روپے سے زائد کی آمدن پیدا کرتی تھی۔

’اس کے علاوہ یہ شہر کئی ملکوں کے سامان اور گھوڑوں کی تجارت کا ایک اہم مرکز تھا۔ ملتان کی ریشمی صنعت اپنی کاریگری اور معیار کے لیے مشہور تھی۔ بخارا کی ریشمی مصنوعات یہاں تجارت کے لیے لائی جاتیں، یہاں بُنی جاتیں اور پورے ہندوستان میں فروخت ہوتیں۔ ملتان ہر سال 40 ہزار میٹر ریشم کا کپڑا تیار کرتا تھا۔‘

اور دولت کی اسی ریل پیل کی وجہ سے ملتان حملہ آوروں کو لبھاتا تھا۔

فقیر سید اعجاز الدین ایک کتاب ’زبدۃ الاخبار‘ کا ریویو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سنہ 1759 میں مرہٹوں نے ملتان کو تاراج کیا لیکن اس کے باوجود یہاں اتنا کچھ باقی رہ گیا کہ سکھوں کو اپنی طرف کھینچ سکے۔

’عید کے دن، 27 دسمبر 1772 کو‘ بھنگی سکھوں نے ملتان کا قلعہ اُس وقت فتح کر لیا جب اس کا گورنر اور اُس کی فوج نماز عید میں مصروف تھے۔ ملتان 1780 تک اُن کے قبضے میں رہا، جب (افغان حملہ آور) تیمور شاہ درّانی نے ایک لشکر کے ساتھ قلعے پر حملہ کیا اور نوجوان (افغان) نواب مظفر خان سدوزئی کی مدد سے وہاں کی فوج کو شکست دی۔‘

’اگلے 38 برس تک مظفر خان نے ملتان کو بڑی صلاحیت کے ساتھ چلایا۔‘

تصویر

،تصویر کا ذریعہWaqar Mustafa/ Public Domain

پہلے خراج پھر قبضہ

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

انیسویں صدی کی ابتدا ہوئی تو لاہور میں حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی نظریں ملتان پر جمی ہوئی تھیں۔

جے ایس گریوال اپنی کتاب ’دی سکھس آف دی پنجاب‘ میں لکھتے ہیں کہ رنجیت سنگھ نے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا وہ پہلے اُن کے باج گزار رہے تھے: چاہے وہ سکھ تھے یا غیر سکھ، میدانی تھے یا پہاڑی۔

’مثلاً خوشاب، ساہیوال، جھنگ اور منکیرہ کے حکمران اپنے علاقوں پر رنجیت سنگھ کے قبضے سے پہلے بہت سالوں تک خراج دیتے رہے تھے۔ زیادہ تر تو یہ ہوا کہ رنجیت سنگھ خراج کی رقم بڑھاتے جاتے یہاں تک کہ حکمران میں یا تو اور خراج دینے کی سکت نہ رہتی یا وہ انکار کر دیتا، جس سے ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی کہ جس میں اس کے علاقے پر قبضے کا جواز بن جاتا۔‘

’ملتان کے گورنر نے بھی لگ بھگ ایک دہائی تک انھیں خراج دیا تھا۔‘

’دی ہسٹری آف دی سکھس‘ میں اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ملتان پر سات حملے کیے۔

’پہلاحملہ 1802 میں ہوا، جس پر نواب مظفر خان نے اطاعت اور خراج کا وعدہ کیا۔ 1805 میں دوسرے حملے پر بھی تحفے اور 70 ہزار روپے دیے۔ تیسرا حملہ 1807 میں جھنگ کے حکمران احمد خان سیال کے اُکسانے پر ہوا، مگر خراج اور گھوڑے دے کر محاصرہ ختم ہوا۔ 1810 میں چوتھے حملے پر شدید لڑائی کے بعد نواب نے ایک لاکھ 80 ہزار روپے، 20 گھوڑے اور سالانہ خراج دینے پر صلح کی۔ پانچواں حملہ 1812 میں پُرامن خراج پر ختم ہوا۔ چھٹا حملہ 1815 میں خراج میں تاخیر پر ہوا، جس میں نواب کو دو لاکھ روپے دینے پڑے۔ 1816 اور 1817 میں خراج کی ادائیگی جاری رہی، مگر مسلسل مالی دباؤ کے باعث نواب نے آخرکار عسکری مزاحمت کی تیاری شروع کر دی۔‘

رنجیت سنگھ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ملتان پر سکھ فوج کا حملہ اور دتار کور

سنہ 1818 کے اوائل میں رنجیت سنگھ نے ملتان پر آخری مہم جوئی کی۔

گلشن لال چوپڑا نے اپنی کتاب ’دی پنجاب ایز اے سوورن سٹیٹ‘ میں لکھا ہے کہ جنوری 1818 تک سکھ سلطنت نے لاہور سے ملتان تک رسد کا وسیع نظام قائم کر لیا، جس میں جہلم، چناب اور راوی ندیوں پر کشتیوں کے ذریعے سامان کی نقل و حمل شامل تھی۔

’رانی راج کور (جو مائی نکائن مشہور ہیں) کو خوراک اور اسلحے کی ترسیل کی کمان دی گئی۔ انھوں نے خود گھوڑوں، اناج اور بارود کی مسلسل فراہمی کوٹ کمالیہ (جو لاہور اور ملتان کے درمیان واقع ہے) میں منظم کیا۔‘

طویل محاصرہ

ہنری تھوبی پرنسیپ اپنی کتاب ’اوریجنز آف دی سکھ پاور ان دی پنجاب‘ میں لکھتے ہیں کہ ملتان کے وسائل ہر سال زبردستی لیے جانے والے خراج، لوٹ مار اور بربادی کے سبب کمزور ہو چکے تھے۔

رنجیت سنگھ کو امید تھی کہ مظفر خان کی دفاعی تیاریوں کے ذرائع اب اتنے ختم ہو چکے ہیں کہ شہر اور قلعہ آسانی سے فتح کیے جا سکتے ہیں۔

’تاہم اس مہم سے پہلے رنجیت سنگھ نے جھنگ کے سابق حکمران احمد خان سیال کو رہا کر دیا، جو نو ماہ سے ان کی قید میں تھے۔ انھیں گزارے کے لیے ایک چھوٹی جاگیر بھی دی گئی۔‘

’رنجیت سنگھ کے ولی عہد کھڑک سنگھ کو اس مہم کی ظاہری کمان سونپی گئی، جبکہ دیوان چند کو عملی کمان دی گئی۔ وہ اپنی قابلیت اور محنت سے ایک معمولی درجے سے ترقی پا کر توپ خانہ کے کمانڈر بن چکے تھے۔‘

’لیکن چونکہ جاگیردار ایک ’کل کا آیا ہوا آدمی‘ کہہ کر ان کے ماتحت رہنے سے ہچکچا رہے تھے، اس لیے رنجیت سنگھ نے ولی عہد کو رسمی سپہ سالار بنا کر سب کی قیادت کا حل نکالا۔ راوی اور چناب پر موجود تمام کشتیاں فوجی رسد اور سامانِ جنگ کی ترسیل کے لیے لے لی گئیں اور جنوری 1818 میں فوج نے کوچ کیا۔‘

’مظفر خان سے نقد رقم کا بہت بڑا مطالبہ کیا گیا اور ان کے پانچ عمدہ گھوڑے مانگے گئے۔ جب فوری طور پر یہ مطالبہ پورا نہ ہوا، تو مظفر گڑھ اور خان گڑھ کے قلعے پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا گیا۔ فروری کے دوران ملتان شہر پر بھی قبضہ کر لیا گیا اور شہر کا قلعہ بغیر زیادہ جانی نقصان کے گھیرے میں لے لیا گیا۔‘

’سکھ فوج کی پیش قدمی بغیر کسی منظم حکمتِ عملی کے ہوئی تھی۔ قلعے کی ہر سمت سے توپ اور بندوقوں کی بے ترتیب فائرنگ کی جا رہی تھی۔ تاہم قلعے کے اندر وسائل کی ایسی کمی تھی کہ اس غیر منظّم حملے کے باوجود مسلسل گولہ باری سے فصیل کئی جگہوں سے ٹوٹ گئی اور قلعے کے بالائی حصے تقریباً تباہ ہو گئے۔‘

سکھ انسائیکلوپیڈیا میں اس کی تفصیل یوں لکھی ہے کہ قلعہ لاہور دربار کی افواج سے گھرا ہوا تھا۔ جنرل الٰہی بخش کی توپیں قلعے کی دیواروں پر ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گولہ باری کرتی رہیں، مگر وہ دیواریں نہیں توڑ سکیں۔ پھر اپریل میں ’زمزمہ‘ توپ لائی گئی۔

’یہ توپ ہر بار 80 پاؤنڈ وزنی لوہے کا گولا دیوار میں داغتی تھی اور اس سے بڑی دراڑیں پڑنے لگیں۔ جب دشمن دوسری دراڑوں کو بند کرنے میں مصروف تھا تو نہنگ سکھوں کے ایک گروہ نے چپکے سے توپ قلعے کی دیوار کے قریب پہنچا دی۔‘

’توپ نے دیوار میں سوراخ تو کر دیا، لیکن اس کا ایک پہیہ ٹوٹ گیا اور وہ بغیر سہارے کے درست سمت میں فائر نہیں کر سکتی تھی۔ چونکہ مسلسل فائرنگ سے سوراخ کو بڑا کرنا ضروری تھا، اس لیے سکھ سپاہی ایک دوسرے سے توپ کو سہارا دینے کا شرف حاصل کرنے پر جھگڑنے لگے۔‘

’کئی لوگ توپ کے دھچکے سے مارے گئے، مگر توپ مسلسل فائر کرتی رہی اور قلعے کی دیوار میں بڑا شگاف ڈال دیا‘۔

یہ ’زمزمہ‘ توپ کا آخری معرکہ تھا۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پرنسیپ کے مطابق ’مئی میں سکھ فوج کی رسائی دفاعی دیوار سے پہلے کی خندق تک ہو گئی اور فوج حملے کے لیے بے تاب ہو گئی۔ لیکن رنجیت سنگھ، جو اگرچہ موقع پر موجود نہ تھے، محاصرے سے متعلق تمام فیصلے خود کرتے تھے، نے کسی قسم کے خطرے سے اجتناب کا حکم دیا۔ انھوں نے نواب مظفر خان کو بار بار پیشکش کی کہ اگر وہ ہتھیار ڈال دیں تو انھیں جاگیر دی جائے گی۔ لیکن مظفر خان آخری دم تک مقابلے کے لیے تیار دکھائی دیے۔‘

’اسی دوران میں، 2 جون کو ایک اکالی سپاہی، سادھو سنگھ، چند ساتھیوں کے ہمراہ بغیر کسی حکم کے حملہ آور ہوئے اور تلوار لے کرخندق میں افغانوں پر ٹوٹ پڑے، جو اُس وقت غفلت یا نیند میں تھے، اور اُن پر قابو پا لیا۔ سکھ خندقوں میں موجود سپاہی اس منظر کو دیکھتے ہی بغیر کسی حکم کے حملے کی حمایت میں آگے بڑھ آئے اور پوری بیرونی دفاعی پٹی پر قبضہ کر لیا گیا، جس میں بڑی تعداد میں افغان مارے گئے۔‘

پرنسیپ کے مطابق اس غیر متوقع کامیابی سے حوصلہ پا کر سکھ افواج نے قلعے پر حملہ کیا اور چونکہ کئی جگہ دیواریں پہلے ہی ٹوٹ چکی تھیں، چنانچہ اندر داخل ہونا آسان ہو گیا۔ قلعہ کے محافظ اس حملے کی توقع نہیں کر رہے تھے اور نہ ہی کوئی مربوط مزاحمت دکھا سکے۔ چنانچہ قلعہ اچانک فتح کر لیا گیا۔

’نواب مظفر خان اپنے چار بیٹوں اور اہلِخانہ کے ساتھ اپنے گھر کے دروازے پر آخری مزاحمت کرتے ہوئے شدید زخمی ہو کر مارے گئے۔‘

’اُن کے دو بیٹے، شاہ نواز خان اور حق نواز، موقع ہی پر مارے گئے جبکہ ایک اور بیٹا بُری طرح زخمی ہوا۔ چوتھا بیٹے، سرفراز خان، جنھیں نواب نے اپنے بعد حکومت کے لیے مقرر کیا تھا، ایک تہہ خانے سے زندہ پکڑے گئے۔‘

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پرنسیپ لکھتے ہیں کہ اب قلعے کو لوٹ لیا گیا اور حملے میں شریک سکھ سپاہیوں کو بے پناہ مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔

’لیکن رنجیت سنگھ نے فوراً حکم جاری کیا کہ پوری فوج لاہور واپس جائے، سوائے ایک دستے کے جس کی قیادت جودھ سنگھ کلسیا کو سونپی گئی تاکہ وہ قلعے کا انتظام سنبھالے۔‘

’فوج کے لاہور پہنچتے ہی اعلان کیا گیا کہ ملتان کی لوٹ مار میں حاصل شدہ تمام مال ریاست کی ملکیت ہے اور ہر وہ سپاہی، افسر یا جاگیردار جس کے پاس کوئی بھی مالِ غنیمت ہو، اُسے خزانے میں جمع کروانے کا حکم دیا گیا، بصورتِ دیگر سخت سزا دی جائے گی۔’

’زیادہ تر مال کا سراغ لگا کر خزانے میں جمع کروا دیا گیا اگرچہ یہ عمل بڑی ناپسندیدگی کے ساتھ اور چھپانے کی کئی کوششوں کے باوجود مکمل ہوا۔ ان لوگوں پر سختی کی گئی جو مال چھپاتے پائے گئے اور ساتھیوں کی باہمی رقابت اور حسد نے بھی انکشاف میں کردار ادا کیا، یہاں تک کہ لاہور کے توشہ خانہ کو اس لوٹ مار سے بے پناہ دولت حاصل ہوئی۔‘

دیوندر سنگھ مانگٹ لکھتے ہیں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ملتان فتح کرنے کے بعد اپنے درباریوں اور دربار میں آنے والے مہمانوں کو اعزاز کے طور پر ملتانی ریشمی لباس پیش کیے۔

دیوان چند، جنھوں نے ملتان فتح کیا، کو ’ظفر جنگ بہادر‘ کا خطاب ملا، ایک جاگیر جس کی مالیت 25 ہزار روپے تھی اور ایک خلعت جو ایک لاکھ روپے کی قیمت کی تھی، بطور انعام عطا کی گئی۔

’نواب مظفر خان کے بیٹوں سرفراز خان اور ان کے زخمی بھائی ذوالفقار خان کو لاہور لایا گیا، جہاں رنجیت سنگھ نے ان کے گزارے کے لیے ایک معمولی وظیفہ مقرر کیا۔‘

افغان اثر و رسوخ کا خاتمہ

مانگٹ لکھتے ہیں کہ ملتان کو دریائے سندھ اور خیبر درّے کے درمیان افغان اثرورسوخ کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔

’لاہور دربار کے ملتان کے الحاق نے پنجاب اور جنوبی علاقوں میں افغان تسلط کے خاتمے کا اشارہ دیا۔ اس فتح نے بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان اور منکیرہ کے سرداروں کو زیرِ اثر لانے اور سندھ کی سمت پیش قدمی کی راہ ہموار کی۔‘

اوتار سنگھ سندھو اپنی کتاب ’جنرل ہری سنگھ نلوا‘ میں لکھتے ہیں کہ ملتان کا محاصرہ ختم ہونے کے ساتھ ہی افغانوں کا پنجاب، خصوصاً پشاور پر اثر مکمل طور پر ختم ہو گیا اور سکھوں نے جلد ہی پشاور پر بھی قبضہ کر لیا۔

SOURCE : BBC