SOURCE :- BBC NEWS

- مصنف, آلوک پوٹول
- عہدہ, بی بی سی ہندی
-
ایک گھنٹہ قبل
مئی 1992 میں جب موسمِ گرما اپنے عروج پر تھا تو انڈیا میں اُس وقت کی سب سے بڑی ماؤ نواز باغیوں کی تنظیم ’پیپلز وار گروپ‘ میں بھی ایک معاملے پر جاری بحث اپنے عروج پر پہنچ رہی تھی۔
یہ بحث ایک ایسے وقت میں جاری تھی جب ریاست آندھرا پردیش میں ’پیپلز وار گروپ‘ پر پابندی عائد ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا۔ اسی دوران اس تنظیم کے سیکریٹری کونڈاپلی سیتارامیا اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک نئی تنظیم کے قیام پر کام شروع کر چکے تھے۔
یہ ایک مشکل وقت تھا اور کونڈاپلی کے ساتھیوں کو پیپلز وار گروپ چھوڑنے یا اسی تنظیم سے منسلک رہنے سے متعلق فیصلہ کرنا تھا۔
کونڈاپلی کے ایک دوست نمبلا کیشوا راؤ نے نئی تنظیم میں جانے کے بجائے پیپلز وار گروپ میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ نمبلا کیشوا راؤ یونیورسٹی گریجویٹ تھے اور بی ٹیک کا کورس مکمل کرنے کے بعد انھیں نے سنہ 1980 کی دہائی میں اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی۔
آگے چل کر جب جون 1992 میں موپلا لکشمنا راؤ عرف گنپتی ’پیپلز وار گروپ‘ کے جنرل سیکریٹری بنائے گئے تو نمبالا کیشوا راؤ اُن کے قریبی ساتھی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور یہی وہ وقت تھا جب نمبالا کیشوا راؤ کو پارٹی کی مرکزی کمیٹی میں عہدہ بھی دیا گیا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اِسی 70 سالہ نمبالا کیشو راؤ کو ماؤنواز باغیوں میں ’بسواراجو‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
تاہم بُدھ کے روز انڈین پولس نے ریاست چھتیس گڑھ کے علاقے نارائن پور میں ایک مقابلے کے بعد نمبلا کیشو راؤ عرف ’بسواراجو‘ کو 27 دیگر ماؤ نواز باغیوں کے ہمراہ ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
انڈیا میں بہت سے لوگ نمبالا کی ہلاکت کو ماؤ نواز مسلح جدوجہد کے خاتمے کے آغاز کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔
نمبالا کیشو راؤ کی مقابلے میں ہلاکت کتنی اہم ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی موت کا سرکاری اعلان کسی پولیس افسر یا ریاستی سربراہ نے نہیں بلکہ ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کیا۔
امیت شا نے بدھ کے روز ٹوئٹر پر لکھا کہ ’نکسل ازم کو ختم کرنے کی لڑائی میں ایک تاریخی کامیابی۔ آج، چھتیس گڑھ کے نارائن پور میں ایک آپریشن میں ہماری سکیورٹی فورسز نے 27 ماؤنوازوں کو ہلاک کر دیا ہے، جن میں سی پی آئی، ماؤسٹ کے جنرل سیکریٹری، سرکردہ لیڈر اور نکسل تحریک کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے نمبالا کیشوا راؤ عرف بسواراجو بھی شامل ہیں۔‘
یونیورسٹی ڈپلومے سے ماؤ نواز تحریک تک

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
جیاناپیٹ گاؤں حیدرآباد شہر سے تقریباً 720 کلومیٹر دور ہے اور اس چھوٹے سے گاؤں کے سکول ٹیچر واسودیو راؤ کی علاقے میں اپنی شہرت تھی۔
اگر آج بھی آپ اس گاؤں کے بزرگوں سے بات کریں تو اُن کے پاس سکول ٹیچر واسودیو راؤ اور اُن کے بیٹے نمبلا کیشو راؤ کے حوالے سے سنانے کے لیے بہت سی کہانیاں ہیں۔
واسودیو راؤ نے اپنی کم آمدن کے باوجود اپنی تین بیٹیوں اور تین بیٹوں کو اچھی تعلیم دینے کی کوشش کی۔ اُن کا دوسرا نمبر کا بیٹا کیشو راؤ ایک ذہین طالب علم تھا۔ ہائی سکول اور جونیئر کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے اپنے بیٹے کیشو راؤ کو ایک انجینیئرنگ کالج میں داخل کروایا۔
اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ چھ فٹ قد رکھنے والے کیشو راؤ نے والی بال اور کبڈی کے کھلاڑی کے طور پر اپنی ایک خاص شناخت بنائی۔
لیکن جب وہ کالج میں بی ٹیک کا کورس کر رہے تھے تو اسی دوران وہ سماجی اور سیاسی تحریکوں میں حصہ لینے لگے اور یہ اطلاعات جلد ہی اُن کے گاؤں تک پہنچنے لگیں۔
بطور طالبعلم کیشو راؤ کے خلاف کچھ مقدمات بھی درج تھے۔
اس علاقے سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن کونا سری پرکاش کا کہنا ہے کہ ’کیشو نے بی ٹیک کے بعد ایم ٹیک کے کورس میں داخلہ لیا تھا لیکن اُن کا زیادہ تر وقت سیاسی سرگرمیوں میں صرف ہوتا تھا۔ انھوں نے پیپلز وار گروپ کے لیے کام کرنا شروع کیا اور جلد ہی انڈر گراؤنڈ ہو گئے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد سے کیشو راؤ کے بارے میں دوبارہ کوئی خبر نہیں ملی۔
ایک عام کارکن کی حیثیت سے اس تنظیم میں شامل ہونے والے نمبالا کیشوا راؤ نے ایک کے بعد ایک ذمہ داریاں سنبھالیں اور تنظیم میں قیادت کا اعتماد حاصل کیا۔
ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ انھیں مشرقی ڈویژن کے سیکرٹری کے طور پر پہلی بڑی ذمہ داری ملی اور پھر ان کا نام ’گنگانا‘ پڑ گیا۔
ہر ذمہ داری اور علاقے کے ساتھ کیشو راؤ کا نام بدلتا رہا وہ گنگانا، پرکاش، کرشنا، وجے، کیشو، بی آر، پرکاش، درپا نرسمہا ریڈی، آکاش، نرسمہا، بسواراج، بسواراجو وغیرہ کے فرضی ناموں کے ساتھ کام کرتے رہے۔
لیکن 1992 میں جب پیپلز وار گروپ تباہی کے دہانے پر تھی تو گنپتی کے ساتھ کھڑے کیشو راؤ کو سینٹرل کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے ذمہ داری دی گئی جس کی وجہ سے وہ تنظیم میں اہمیت اختیار کر گئے۔

انھیں سینٹرل کمیٹی اور پولٹ بیورو میں جگہ کیسے ملی؟
سنہ 1992 میں پیپلز وار گروپ کی مرکزی کمیٹی کے رکن کے طور پر منتخب ہونے کے بعد کیشو راؤ نے طویل عرصے تک ماؤنواز تنظیم میں سپیشل گوریلا سکواڈ کی کمان کی۔
کیشو راؤ، جو ہتھیاروں سے لے کر تربیت تک ہر چیز کے انچارج تھے، کو غیر منقسم آندھرا پردیش، مہاراشٹرا اور غیر منقسم مدھیہ پردیش میں تنظیم کو بڑھانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
ماؤ نواز دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ گوریلا دستہ تنظیم میں 1994-95 میں شروع ہوا تھا، لیکن مئی 1999 کے آس پاس، مرکزی گوریلا سکواڈ کو ختم کر دیا گیا اور پلاٹون، مقامی گوریلا سکواڈ اور خصوصی گوریلا دستے شروع کر دیے گئے۔
اس عرصے میں پہلی بار عسکری اور تنظیمی کاموں کے لیے الگ الگ جماعتیں بنائی گئیں۔ اس عرصے کے دوران کیشو راؤ نے سینٹرل ملٹری کمیشن کے انچارج کے طور پر کام کیا۔
سنہ 2000 میں ماؤ نواز تنظیم نے پیپلز لبریشن گوریلا آرمی بنائی اور یہ وہ دور تھا جب کیشو راؤ کو تنظیم کی اعلیٰ ترین کمیٹی یعنی پولیٹ بیورو میں جگہ ملی۔
سینٹرل ٹیکنیکل کمیٹی، سینٹرل کمیٹی اور سینٹرل ملٹری کمیشن پولٹ بیورو کے تحت کام کرتے ہیں۔ جب 2001 میں پیپلز وار گروپ کی ساتویں کانگریس ہوئی تو کیشو راؤ کو سینٹرل ملٹری کمیشن کے انچارج کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔
اس دوران کیشو راؤ کا نام ملک کے مختلف حصوں میں پُرتشدد ماؤنواز سرگرمیوں سے جڑنے لگا اور مختلف ریاستی اور مرکزی تنظیموں کی طرف سے اس کے سر پر رکھے گئے انعام کی رقم میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
ابھی پچھلے مہینے یعنی اپریل 2025 میں اُن کے سر کی قیمت میں ایک کروڑ روپے مزید اضافہ کیا گیا تھا۔
بڑے حملوں میں ہاتھ
ایک پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ کیشو راؤ نے پہلی بار 1987 میں آندھرا پردیش کے مشرقی گوداوری ضلع میں ہوئے ایک حملے کی قیادت کی تھی، جس میں ایک پولیس افسر سمیت چھ پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔ اس کے بعد کیشو راؤ کی جانب سے کی گئی کارروائیوں اور تشدد کے واقعات کی تفصیلات اب پولیس ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
چاہے وہ 10 اپریل 2010 کو دنتے واڑہ میں 76 جوانوں کے قتل کا معاملہ ہو یا 23 مئی 2013 کو دربھ وادی میں ہونے والا قتل عام، جس میں کانگریس کے سرکردہ لیڈروں سمیت 27 لوگ مارے گئے تھے، ایسے ہر بڑے واقعے میں کیشو راؤ کا کلیدی کردار مانا جاتا ہے۔
پولیس کا خیال ہے کہ کیشو راؤ نے آپریشن کے لیے نکلنے والی سکیورٹی فورسز کی ٹیموں کو گھیرنے کے لیے مختلف جال اور گھات لگانے کی نئی تکنیک ایجاد کی، جو وسطی انڈیا میں پہلے کبھی استعمال نہیں کی گئیں۔
ایک افسر کا کہنا ہے کہ ’کیشو راؤ کو سنہ 2018 میں اراکو میں ہونے والے حملے میں آندھرا پردیش کے ایم ایل اے کدری سرویشور راؤ اور سابق ایم ایل اے سیوری سوما کے قتل کے لیے بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔‘
کیشو راؤ 2019 میں گڈچرولی میں 15 کمانڈوز سمیت 16 لوگوں کے قتل کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ کیشو راؤ اور اس وقت کے آندھرا کے وزیراعلیٰ چندرا بابو نائڈو پر قاتلانہ حملے کے بھی کرتا دھرتا تھے۔
اوڈیشہ اور چھتیس گڑھ کی جیلوں پر حملے میں بھی ان کا نام لیا جاتا تھا۔
ان پرتشدد واقعات کے درمیان، تنظیم کے اندر کیشو کی گرفت مضبوط ہوتی رہی، لیکن 2009 میں کوباد گاندھی اور 2010 میں پولٹ بیورو کے ممبروں میں سے ایک ’بیجوئے دا‘ جو نوین پرساد اور نارائن سانیال کے ناموں کے ساتھ بھی کام کرتے رہے کی گرفتاری نے تنظیم کے لیے کئی بحران پیدا کر دیے۔
جولائی 2010 میں سی پی آئی ماؤنواز کے ترجمان چیروکوری راجکمار عرف آزاد اور نومبر 2011 میں کوٹیشور راؤ عرف کشن جی کے قتل کے بعد کیشو راؤ کی ماؤنواز تنظیم پر گرفت مزید مضبوط ہوتی گئی۔
جب سی پی آئی کے جنرل سیکریٹری موپالا لکشمنا راؤ عرف گنپتی نے خرابی صحت کی بنیاد پر تنظیمی عہدے سے فراغت کی درخواست دی تو کیشو راؤ فطری طور پر سی پی آئی کی کمان سنبھالنے کے لیے سب سے زیادہ موزوں امیدوار بن کر سامنے آئے۔
سنہ 2018 میں نمبالا کیشو راؤ عرف بسواراجو کو پارٹی کا جنرل سیکریٹری بنایا گیا تھا۔
زیادہ تر مارکسسٹ اور ماؤنواز تنظیموں کے پاس صدر یا نائب صدر کا عہدہ نہیں ہوتا۔ جنرل سیکرٹری تنظیم میں سب سے بڑا عہدہ سمجھا جاتا ہے۔
اس طرح کیشو راؤ بی ٹیک کی تعلیم کے بعد ماؤنواز تنظیم میں ایک عام کارکن کی حیثیت سے ماؤنوازوں کے سربراہ بن گئے۔

ماؤ نواز تنظیم کا بحران
نمبالا کیشو راؤ نے اس وقت تنظیم کی کمان سنبھالی تھی جب سرکاری دستاویزات میں درج ’ریڈ کاریڈور‘ بہت کم رہ گیا اور صرف ضلع بستر ہی ماؤنوازوں کا ایک مضبوط گڑھ رہ گیا تھا۔
غیر منقسم مدھیہ پردیش کے زمانے میں پیپلز وار سے وابستہ ماؤنوازوں کے ڈنڈکارنیا زون میں پانچ ڈویژن تھے۔
ان علاقوں میں مشتبہ ماؤنواز حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بنے ہوئے تھے۔ لیکن کیشو راؤ کی قیادت والی تنظیم کے پاس یہ میراث نہیں تھی۔
اس صورتحال میں بھی کیشو راؤ نے تنظیم کو وسعت دینے کی کوشش کی۔
سنہ 2016 میں بنائے گئے ایم ایم سی زون یعنی مہاراشٹر۔۔مدھیہ پردیش۔۔چھتیس گڑھ زون کو مضبوط بناتے ہوئے، مدھیہ پردیش کے منڈلا اور بالاگھاٹ میں پھیلے کانہا نیشنل پارک کے علاقے اور چھتیس گڑھ کے کبیردھام کے بھورم دیو سینکچری کو ملا کر کے بی ڈویژن بنایا گیا تھا۔
اسی طرح مہاراشٹر کے گونڈیا ضلع، چھتیس گڑھ کے راج ناندگاؤں ضلع اور مدھیہ پردیش کے بالاگھاٹ ضلع کو جی آر بی ڈویژن میں شامل کیا گیا۔ ملک کے دیگر حصوں میں بھی تنظیم کو وسعت دینے کی کوشش کی گئی۔
لیکن چھتیس گڑھ میں کانگریس پارٹی کی حکومت کے دوران جس طرح ایک کے بعد ایک سکیورٹی فورسز کے کیمپ کھولے گئے، اس نے ماؤنوازوں کو کہیں نہ کہیں مشکل میں ڈال دیا۔
اس کے بعد جب دسمبر 2023 میں آئی بی جے پی کی وشنو دیو سائی حکومت نے چند مہینوں میں ماؤ نوازوں کے خلاف جارحانہ کارروائیاں شروع کیں تو کیشو راؤ کو ماؤنواز تنظیم کو بچانے اور اسے برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش تھا۔
بی جے پی حکومت کے 15 مہینوں کے دوران 450 سے زیادہ ماؤنواز مارے گئے، سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا اور کچھ لاپتہ ہوئے۔ مبینہ ماؤنوازوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی ہتھیار ڈال دیے تھے۔
صورت حال ایسی بن گئی کہ ماؤ نواز تنظیم نے اپنا ضد پر مبنی موقف ترک کر دیا اور غیر مشروط امن مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی۔ لیکن اب حکومت اس کے لیے تیار نہیں تھی۔
چھتیس گڑھ کے وزیر داخلہ وجے شرما نے کہا کہ مذاکرات تبھی ہوں گے جب ماؤ نواز ہتھیار ڈال دیں گے۔
کیا یہ ماؤنوازوں کے انجام کی شروعات ہے؟

لیکن ان بیانات کے درمیان بدھ کو کیشو راؤ کے قتل کے بعد ماؤ نواز تنظیم کو لے کر کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
چھتیس گڑھ کے ایک پولس افسر کا کہنا ہے کہ ’اس موت کا باقی ماؤنوازوں پر بڑا نفسیاتی اثر پڑے گا۔ کیشو راؤ کے قتل کے بعد ماؤنواز تنظیم قیادت سے محروم ہو گئی ہے۔ ایسی صورت حال میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ماؤنوازوں کے خاتمے کی شروعات ہے۔
وزیر داخلہ امیت شاہ کی طرف سے ملک سے ماؤ ازم کو ختم کرنے کے لیے جو دو مارچ 2026 کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی وہ اب تک پوری ہو گئی ہے۔
تاہم، وشورنجن، جو چھتیس گڑھ میں کئی سالوں تک پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہے، وہ اسے مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کیشو راؤ کا قتل پولیس کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس کا اثر پڑے گا۔ ممکن ہے کہ ماؤ نوازوں کا مسئلہ کچھ سالوں کے لیے ٹھنڈا ہو جائے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ 1973 میں نکسلائیٹ تحریک کو بری طرح سے کچلنے کے بعد بھی نکسلائیٹ نے کئی دہائیوں کے بعد بالآخر خود کو فعال کر لیا۔‘
وشورنجن کے مطابق یہ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں ماؤنواز تحریک عدم تشدد کی شکل میں نمودار ہو یا پھر کسی اور پرتشدد شکل میں ابھرے۔ اس کے امکانات باقی ہیں۔‘
وشورنجن کی بات اپنی جگہ مگر آج کی حقیقت یہی ہے کہ کیشو راؤ کو 33 برس پہلے مئی میں اہم ذمہ داری سونپی گئی تھی اور مئی کے مہینے میں ان کے قتل کے ساتھ ہی تنظیم میں ایک بار پھر خلا پیدا ہو گیا ہے۔
کئی ماہ کی شدید گرمی کے بعد اس وقت بستر سمیت چھتیس گڑھ کے متعدد علاقوں میں شدید بارشیں ہو رہی ہیں ایسے میں کیشو راؤ میں دیگر ماؤ رہنماؤں کی لاشوں کو ضلعی ہیڈکوارٹر لانے کی تیاری ہو رہی ہے۔
SOURCE : BBC