SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہUmar Farooq
- مصنف, عزیز اللہ خان
- عہدہ, بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، پشاور
-
2 گھنٹے قبل
’میں کمرے میں تلاوت کر رہا تھا جبکہ بچوں کی والدہ انھیں ناشتہ دے رہی تھیں۔ میرے بچوں نے سکول بیگ پہنے ہوئے تھے اور وہ چھوٹے بھائی کا انتظار کر رہے تھے جو کہ ابھی اپنی چائے ختم کر رہا تھا۔‘
’ابھی بچے گھر کے صحن ہی میں تھے کہ زور دار دھماکہ ہوا۔ دھماکے کے بعد گرد اور دھواں اٹھا۔ میں باہر بھاگا تو دیکھا کہ میرے دو بچے میرے سامنے موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ میں نے اپنے تیسرے شدید زخمی بچے کو گود میں اٹھایا، وہ بھی چند ہی لمحوں میں میری گود میں ہی دم توڑ گیا۔‘
یہ کہنا ہے پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں چند روز قبل ہوئے ایک مبینہ ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے چار بچوں کے والد شاہ فہد کا۔
شاہ فہد اپنے دو بیٹوں کی میتوں کے ہمراہ میر علی میں ہونے والے اس دھرنے میں موجود ہیں جو مبینہ ڈرون حملے میں ہوئی ہلاکتوں کے بعد بطور احتجاج شروع کیا گیا تھا اور آج پانچویں روز بھی جاری ہے کیونکہ مقامی قبائل کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اُن کے حکام کے ساتھ ہونے والے مذاکرات فی الحال کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
شاہ فہد کا دعویٰ ہے کہ دھماکے سے قبل صحن میں موجود بچوں نے اپنے گھر کے اوپر مبینہ ڈرون نا صرف دیکھا تھا بلکہ چلا کر اپنے والدین کو اس بارے میں آگاہ بھی کیا تھا۔ شاہ فہد کا مزید دعویٰ ہے کہ دھماکے کے بعد جب وہ کمرے سے نکل کر صحن میں پہنچے تو حملہ آور مبینہ ڈرون اس وقت بھی فضا میں موجود تھا۔
شاہ فہد اب مقامی قبائل کے ہمراہ دھرنے میں یہ مطالبہ لیے بیٹھے ہیں کہ انھیں انصاف فراہم کیا جائے اور اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔
شاہ فہد بتاتے ہیں کہ دھماکے بعد ہی مقامی افراد ان کے گھر جمع ہو گئے اور ان کے تین بچوں کی لاشوں اور زخمی ہونے والے افراد کو مقامی ہسپتال منتقل کیا جانے لگا مگر ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی ان کا چوتھا بچہ بھی دم توڑ گیا۔
یاد رہے کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والا چوتھا بچہ شاہ فہد کا بھتیجا تھا جسے وہ اپنا بیٹا ہی قرار دیتے ہیں۔ اس واقعے میں ان کی اہلیہ سمیت چار افراد زخمی ہوئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ وہ اس واقعے پر کیا کہہ سکتے ہیں ’لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ جس نے بھی یہ ظلم کیا، اس کے لیے بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے۔‘
بدھ کے روز ضلعی پولیس افسر وقار احمد نے بی بی سی کو اس واقعے اور اس میں ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی جبکہ پولیس حکام کا کہنا تھا کہ انھیں مقامی افراد کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ یہ ایک مبینہ ڈرون حملہ تھا تاہم اس معاملے پر تحقیقات کی جا رہی ہیں اور یہ معلوم کیا جا رہا ہے کہ یہ ڈرون کہاں سے آیا۔
دھرنا اور مذاکرات

،تصویر کا ذریعہUmar Farooq

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
اس واقعے کے بعد میر علی میں دھرنے کا آغاز چار بچوں کی میتوں کے ہمراہ کیا گیا تاہم بدھ کے روز دو بچوں کی تدفین کر دی گئی جبکہ دیگر دو بچوں کی میتیں مقامی مسجد میں تابوت میں رکھی گئی ہیں۔
مقامی قبائل کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اُن کے حکام کے ساتھ ہونے والے مذاکرات فی الحال کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
میر علی میں جاری اس دھرنے میں مقامی قبائلی اور سیاسی رہنماؤں کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ بھی موجود ہیں۔
اتمانزئی قبیلے کے ترجمان اور حکام کے ساتھ مذاکرات میں شامل مولانا بیت اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعرات کے روز میرانشاہ کے گورنر کاٹیج میں حکام کے ساتھ مذاکرات میں مختلف امور پر بات چیت ہوئی جس میں اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بنانے کی تجویز سامنے آئی ہے جو ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرے گا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ مقامی قبائل کی جانب سے متعلقہ سکیورٹی حکام کے اس علاقے سے تبادلے کے بارے میں بھی مطالبہ کیا گیا تاہم اس حوالے سے حکام کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
مولانا بیت اللہ نے بتایا کہ وہ ان مذاکرات کے بارے میں اپنے قبائل کے ساتھ مشاورت کر کے حکام کو جواب دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ جب تک مطالبات مان نہیں لیے جاتے تب تک اُن کا دھرنا جاری رہے گا۔
مقامی قبائلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر جرگہ میں حکام سے مذاکرات ناکام ہوئے تو وہ پھر قوم کے ساتھ مشاورت کے بعد اسلام آباد یا پشاور میں احتجاج کے لیے جائیں گے۔
مولانا بیت اللہ نے بتایا کہ بچوں کی میتیں اب بھی پڑی ہیں اور اگر قوم نے فیصلہ کیا تو وہ احتجاج کے لیے میتیں لے کر اسلام آباد یا پشاور جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ قومی مشران نے اسلام آباد یا پشاور جانے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور یہاں گاڑیوں کا انتظام کر لیا گیا ہے جبکہ بنوں، کرک، کوہاٹ اور پشاور میں بھی متعلقہ اقوام سے کہا گیا ہے کہ وہ سفر کا بندوبست کر لیں۔
ان مذاکرات میں شامل سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے قبائلی رہنماؤں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ ڈرون حملہ سکیورٹی حکام کی جانب سے نہیں کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کے نمائندوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائیں گی اور جو کوئی بھی ملوث پایا گیا سزا سے نہیں بچ پائے گا۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ گذشتہ چند ماہ سے شدت پسند بھی کواڈ کاپٹرز کا استعمال کر رہے ہیں اور ممکن ہے کہ شدت پسندوں کی جانب سے کیا گیا ہو۔
قبائلی رہنما عبدالخلیل وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ حملہ کرنے والے ڈرون کو نا صرف گھر میں موجود افراد بلکہ مقامی لوگوں نے بھی دیکھا تھا۔

،تصویر کا ذریعہUmar Farooq
آئی ایس پی آر کا ردعمل
یاد رہے کہ اس مبینہ ڈرون حملے کے بعد پاکستان کے سوشل میڈیا پر بہت سے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
بدھ کے روز فوج کے تعلقات عامہ کی جانب سے بھی اس واقعے سے متعلق ایک بیان جاری کیا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس واقعے کے فوراً بعد ایک جامع تفتیش کا آغاز کیا گیا اور ’ابتدائی نتائج سے یہ ثابت ہوا کہ اس گھناؤنے اقدام کی منصوبہ بندی اور اسے عملی جامع انڈیا کی پشت پناہی سے فتنہ الخوارج (طالبان) نے پہنایا۔‘
اس بیان میں کہا گیا کہ 19 مئی کو میر علی میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے، جس میں عام شہریوں کا جانی نقصان ہوا، کے بعد سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف چند حلقوں کی جانب سے بے بنیاد الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔
آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ یہ الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں اور اُس گمراہ کن مہم کا حصہ ہیں جس کا مقصد شدت پسندی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی فورسز کی کاوشوں کو نقصان پہنچانا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’سکیورٹی فورسز اس بات کو یقینی بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہیں کہ اس غیر انسانی فعل میں ملوث مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘
مقامی سیاسی رہنماؤں کا ردعمل
میر علی تحصیل کے گاؤں ہرمز میں پیش آنے والے واقعے پر مقامی سیاسی رہنماؤں نے بھی اپنے اپنے ردعمل کا اظہار اپنے بیانات اور ٹویٹس میں کیا۔
نینشل ڈیموکرٹیک موومنٹ کے سربراہ اور اس علاقے سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت شمالی وزیرستان سمیت بیشتر جنوبی اضلاع میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور حکومت کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس علاقے میں مسلح شدت پسند موجود ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی جبکہ یہاں جدید اسلحہ بھی عام ہے۔
انھوں نے کہا کہ میر علی کے علاقے ہرمز میں ڈرون حملے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ محسن داوڑ نے کہا کہ اس وقت جو حالات ہیں اس میں سویلینز کا زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔
SOURCE : BBC