SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہChristie’s
- مصنف, جانوی موئے
- عہدہ, بی بی سی مراٹھی
- Twitter,
-
21 منٹ قبل
دو مراٹھی شاہی خاندانوں کی ملکیت رہنے والے ’دی گولکنڈہ بلیو‘ نامی نایاب نیلے ہیرے کو فروخت کی غرض سے جلد ہی نیلامی کے لیے پیش کیا جائے گا۔
یہ بیش قیمت ہیرا ماضی میں انڈین ریاست اندرو کے ’ہولکر‘ اور پھر بڑودہ کے ’گائیکواڑ‘ شاہی خاندانوں کے خزانوں کی زینت رہ چکا ہے۔
نیلام گھر ’کرسٹیز‘ نے اب یہ اعلان کیا ہے کہ ’گولکنڈہ بلیو‘ دنیا میں موجودہ ہلکے نیلے رنگ کا اب تک کا سب سے بڑا ہیرا ہے جسے نیلامی کے لیے پیش کیا جائے گا۔
اس ہیرے کا وزن 23.24 قیراط ہے اور یہ ناشپاتی کی شکل یا آنسو کے قطرے جیسا دکھائی دیتا ہے۔
اس نایاب ہیرے کو سوئٹزرلینڈ میں 14 مئی کو ہونے والی نیلامی میں فروخت کے لیے پیش کیا جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی قیمت تین سے پانچ کروڑ امریکی ڈالر کے درمیان ہو سکتی ہے۔
یہ ہیرا اپنی منفرد شکل، وزن اور رنگ کے ساتھ ساتھ شاہی خاندانوں سے اپنی نسبت کے باعث کافی بیش قیمت قرار دیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق قدرتی طور پر نیلے رنگ کے ایسے ہیرے بہت کم ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں صرف 0.02 فیصد ہیرے نیلے رنگ کے ہوتے ہیں جبکہ ہلکے نیلے ہیرے اور بھی نایاب ہیں۔
زیادہ تر نیلے ہیروں کا وزن 10 قیراط سے کم ہوتا ہے لیکن ’گولکنڈہ بلیو‘ نامی یہ ہیرا اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔
نیلام گھر ’کرسٹیز‘ میں جواہرات کے شعبے کے بین الاقوامی سربراہ راہول کداکیا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ دنیا کے نایاب اور خاص ہیروں میں سے ایک ہے اور اس ہیرے کے وزن اور سائز میں گذشتہ 100 سے زائد برسوں کے دوران کوئی تبدیلی نہیں کی گئی (یعنی اس دورانیے میں اس کا کانٹ چھانٹ نہیں کی گئی اور یہ اصلی حالت میں موجود ہے)۔‘
کسی بھی ہیرے کی قیمت کا تعین اُس کے سائز، وزن اور شفافیت کی بنیاد پر ہوتا ہے تاہم کسی مخصوص ہیرے کے پیچھے موجود کہانی اور اس کی تاریخ بھی اسے بیش قیمت بناتی ہے اور اس کی وجہ سے بھی بعض اوقات لوگ انھیں خریدنا چاہتے ہیں۔
’گولکنڈہ بلیو‘ نامی اس ہیرے کی کہانی بھی اتنی ہی دلچسپ ہے۔
شاہی میراث

،تصویر کا ذریعہHolkar Cultural Centre
راہول کداکیا کہتے ہیں کہ ’جب بھی ہمیں اس طرح کا کوئی ہیرا ملتا ہے تو ہمارے ماہرین دنیا بھر کے معروف جیولرز سے رابطہ کر کے چیک کرتے ہیں کہ آیا اُن کے پاس اس ہیرے سے متعلق کوئی معلومات ہیں۔‘
اس طرح کی تحقیقات سے ہی ’گولکنڈہ بلیو‘ نامی ڈائمنڈ کی کہانی سامنے آئی اور یہ کہانی اندور کے آخری مہاراجہ یشونت راؤ ہولکر دوم سے شروع ہوتی ہے۔
یشونت راؤ کی اہلیہ، سانیوگیتا بائی دیوی، کاگل کے سردار راجاشری دتاجی راؤ گھاٹگے کی بیٹی تھیں اور رشتے کے لحاظ سے، کولہاپور کے چھترپتی شاہو مہاراج کی کزن تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ یشونت راؤ اور سانیوگیتا کی شادی نے اس وقت ذات پات کی رکاوٹیں توڑ دی تھیں۔
مہاراج یشونت راؤ اور مہارانی سانیوگیتا طویل عرصے سے بیرون ملک مقیم تھے اور وہ جدید مغربی دنیا کے شیدائی تھے۔
سنہ 1923 میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک جوہری نے یشونت راؤ کی درخواست پر ایک بریسلٹ بنایا۔ اس بریسلٹ میں ایک چمکدار نیلا ہیرا لگا ہوا تھا۔ یہ ہیرا یشونت راؤ کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا اور ریکارڈ کیا جاتا ہے کہ یہ گولکنڈہ کی کان سے آیا تھا۔
دس سال بعد، یشونت راؤ نے اسی ہیرے کو ایک اور فرانسیسی جوہری، موبوسین سے سنیوگیتا دیوی کے لیے ہار بنانے کے لیے استعمال کیا۔
اس ہار میں نیلے ہیرے گولکنڈہ بلیو کے ساتھ ایک بڑا زمرد بھی جڑا ہوا تھا۔ دو بڑے سفید ہیرے اور بھی تھے جو ’اندور پیئرز‘ کے نام سے مشہور تھے۔
فرانسیسی پینٹر برنارڈ بوٹ ڈی مونویل نے نوجوان ملکہ سانیوگیتا دیوی کی تصویر بنائی جس میں وہ ہیروں کا یہ ہار پہنے ہوئے نظر آ رہی ہیں۔
بعد ازاں، یشونت راؤ ہولکر نے یہ نیلا ہیرا مشہور امریکی جوہری ہیری ونسٹن کو جنوری 1947 میں فروخت کیا۔ ونسٹن نے اُسی سال جون میں یہ ہیرا مہاراجہ بڑودہ کو بیچ دیا۔
یہ وہ وقت تھا جب انڈیا کو آزادی ملی تھی اور ریاستیں آہستہ آہستہ ضم ہو رہی تھیں۔
کچھ عرصے بعد ہیری ونسٹن نے نیلے ہیرے کو دوبارہ خریدا اور پھر اسے ہیرے کے موجودہ مالکان کو فروخت کر دیا، جو تب سے اس کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔
لیکن اب اس ہیرے کو انگوٹھی میں لگا دیا گیا۔

،تصویر کا ذریعہHolkar Cultural Centre
نیلے ہیروں کی بڑھتی ہوئی مانگ
نیلے ہیرے کئی وجوہات کی بنا پر دوسرے سفید یا شفاف ہیروں سے مختلف ہوتے ہیں۔ یا تو وہ زمین کی پرت کے نیچے گہرائی میں بنتے ہیں، اور بوران جیسے کیمیکل ان ہیروں کو اپنی مخصوص نیلی رنگت دیتے ہیں۔
لہذا، نیلے ہیرے اکثر سائنسی طور پر بھی اہم ہوتے ہیں کیونکہ ہم ان علاقوں تک اتنی گہرائی میں نہیں جا سکتے جہاں وہ بنتے ہیں۔ تشکیل کے دوران اس علاقے سے کیمیکل اور دیگر چیزیں ان ہیروں میں پھنس جاتی ہیں۔ کسی وجہ سے، جب یہ ہیرے کرسٹ کے اوپر پہنچ جاتے ہیں، تو ہم ان کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور زمین کے اندرونی حصے کے بارے میں اہم معلومات جمع کر سکتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہChristie’s
نیلے ہیرے دنیا بھر میں بہت کم کانوں میں پائے گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر آندھرا پردیش میں گوداوری اور کرشنا ندیوں کی وادیوں کے درمیان کولور کی کانوں میں پائے جاتے ہیں۔
یہ علاقہ گولکنڈہ کے بادشاہوں کی حکومت میں تھا اور ان کانوں سے ہیروں پر کام کرنے والی صنعت گولکنڈہ میں واقع تھی۔ اس لیے ان کانوں سے نکلنے والے ہیروں کو گولکنڈہ ہیرے کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کولور کی کانوں کو دنیا کی قدیم ترین ہیروں کی کانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کان میں کوہ نور، ڈریسڈن گرین اور ہوپ ڈائمنڈ جیسے جواہرات ملے ہیں۔
راہول کداکیا کہتے ہیں کہ ’دنیا میں گولکنڈہ واحد جگہ ہے جہاں مختلف رنگوں کے ہیرے پائے گئے ہیں۔۔۔ سفید، سبز، گلابی اور نیلے۔ تصور کریں کہ یہ علاقہ معدنیات سے کتنا مالا مال ہوگا۔‘

،تصویر کا ذریعہReuters
’گولکنڈہ بلیو‘ کا وزن دنیا کے مشہور ’ہوپ ڈائمنڈ‘ سے لگ بھگ آدھا ہے لیکن ہوپ ڈائمنڈ کا گہرا نیلا سیاہی جیسا رنگ ہے جبکہ گولکنڈہ بلیو کا رنگ ہلکا اور آسمانی ہے۔
نیلے ہیرے فطرت میں بہت نایاب ہیں۔ 20 قیراط سے زیادہ وزنی نیلے ہیرے اور بھی نایاب ہیں اور اس لیے ان ہیروں کی جمع کرنے والوں میں بہت زیادہ مانگ ہے۔
اس سے پہلے گولکنڈہ بلیو سے ملتا جلتا 14.62 قیراط وزنی ’اوپن ہائیمر بلیو‘ ہیرا سنہ 2016 میں پانچ کروڑ ڈالر میں فروخت ہوا تھا جبکہ 2022 میں ڈی بیئرز کے کلینن بلیو ہیرے نے پانچ کروڑ 70 لاکھ ڈالر کمائے۔
اب، گولکنڈہ بلیو ہیرے کی زیادہ قیمت ملنے کی امید ہے۔
SOURCE : BBC