Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں یوکرین جنگ: ’تین دن کی عارضی جنگ بندی‘ سے پوتن کیا حاصل...

یوکرین جنگ: ’تین دن کی عارضی جنگ بندی‘ سے پوتن کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

4
0

SOURCE :- BBC NEWS

پوتن

،تصویر کا ذریعہEPA

  • مصنف, سٹیون روزنبرگ
  • عہدہ, مدیر برائے روس
  • 2 گھنٹے قبل

جنگ بندی کب امن قائم کرنے کی سنجیدہ کوشش ہوتی ہے؟ اور کب صرف تشہیر حاصل کرنے کی کوشش؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو حالیہ دنوں میں متعدد بار اٹھایا گیا۔ اکثر اس سوال کا تعلق روسی صدر ولادیمیر پوتن سے تھا کیوں کہ مختصر جنگ بندی ایک روسی رواج بنتا جا رہا ہے۔

پہلے پوتن نے ایسٹر کے موقع پر 30 گھنٹوں کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا اور اسے انسانی ہمدردی کے طور پر پیش کیا۔ اب پوتن نے یکطرفہ طور پر مئی کے اوائل میں تین دن کی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے جو آٹھ مئی سے دس مئی تک جاری رہے گی۔ ان دنوں میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام کو 80 سال ہو جائیں گے۔

ایک بیان میں کریملن کی جانب سے کہا گیا کہ 72 گھنٹوں کے لیے تمام عسکری کارروائیاں رک جائیں گی۔ اس بیان میں بھی انسانی ہمدردی کا ذکر کیا گیا اور واضح کیا گیا کہ روس کو توقع ہے کہ یوکرین بھی اس کی پاسداری کرے گا۔

اس تجویز کے جواب میں یوکرین نے سوال اٹھایا ہے کہ روس فوری طور پر جنگ بندی کیوں نہیں کر سکتا اور ساتھ ہی ساتھ جنگ بندی کی مدت کم از کم 30 دن کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

یوکرین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’اگر روس واقعی امن چاہتا ہے تو اسے فوری جنگ بندی کرنی چاہیے، آٹھ مئی تک کا انتظار کیوں؟‘

ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہReuters

ایسے میں یہ سوال موجود ہے کہ تین سال قبل یوکرین پر حملہ کرنے والے روسی صدر کی جانب سے کیا یہ لڑائی روکنے کی ایک سنجیدہ اور مخلص کوشش ہے؟ یا پھر وہ صرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دکھانے کے لیے ایک مشق کر رہے ہیں؟

روسی ناقدین یقینا اسے تشہیر کی کوشش سمجھیں گے۔ ایسٹر پر جنگ بندی کے دوران یوکرین نے بارہا روسی فوجیوں پر اس کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔

ماسکو نے جنگ میں 30 گھنٹے کے تعطل کے اعلان سے وائٹ ہاؤس کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ اس جنگ میں روس امن پسند ہے جبکہ یوکرین جارح ہے۔ روس نے یوکرین پر الزام لگایا کہ اس نے امن کی پیشکش کو نظر انداز کرتے ہوئے جنگ کو طوالت دی۔

لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ ٹرتھ سوشل نامی پلیٹ فارم پر ٹرمپ نے لکھا کہ ’شہری علاقوں میں میزائل داغنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ وہ (پوتن) جنگ کو روکنا نہیں چاہتے اور اب کچھ مختلف کرنا ہو گا، بینکنگ یا پابندیوں کے ذریعے کیوں کہ بہت زیادہ لوگ مر رہے ہیں۔‘

اور ایسے میں روس کی جانب سے ایک بار پھر جنگ بندی کا اعلان سامنے آ گیا جو اس بار گزشتہ جنگ بندی سے کچھ طویل ہے، یعنی تین دن۔ اور اس بار بھی انسانی ہمدردی کی بات کی گئی ہے۔

کیا یہ بھی امریکہ کو دکھانے کی کوشش ہے کہ روس کا ارادہ مثبت ہے؟ اور یہ کہ اس سب کے بیچ روس برا نہیں؟

اگر ایسا ہے تو یہ کوشش بھی شاید کامیاب نہیں ہوئی۔ وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری کیرولین لیویٹ نے عارضی جنگ بندی کی پیشکش پر کہا کہ ’امریکی صدر نے واضح کیا ہے کہ وہ مستقل جنگ بندی چاہتے ہیں تاکہ خونریزی ختم ہو اور وہ دونوں ممالک کے سربراہان سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔‘

یہ ایک عندیہ ہے کہ روس کی جانب امریکی صدر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے اگرچہ کہ حالیہ مہینوں میں ان کی تنقید کا نشانہ یوکرین کے صدر بنتے رہے ہیں۔

پوتن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گزشتہ ماہ ٹرمپ انتظامیہ نے روس اور یوکرین پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ تیس دن کی جنگ بندی پر اتفاق کریں۔ یوکرین نے حامی بھر لی تھی لیکن روس نہیں مانا۔

تاہم اب سینئر روسی حکام پوتن کی جانب سے تین دن کی جنگ بندی کی پیشکش کے بعد یوکرین کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

روسی پارلیمان کے ایوان زیریں کے سپیکر نے روسی سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یقین نہیں ہے کہ زیلینسکی ہمارے صدر کے فیصلے کی حمایت کریں گے اور جنگ بندی قبول کریں گے۔‘

یہ زیادہ حوصلہ افزا بات نہیں ہے اور وہ بھی جنگ بندی کے اعلان کے فوری بعد۔

SOURCE : BBC