Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں وہ ملک جہاں کتے کو چہل قدمی نہ کروانا، بچے کا فیڈر...

وہ ملک جہاں کتے کو چہل قدمی نہ کروانا، بچے کا فیڈر گفٹ کرنا اور نوکری چھوڑنے سے پہلے نوٹس نہ دینا قابلِ سزا ’جرم‘ ہیں

6
0

SOURCE :- BBC NEWS

انڈیا

،تصویر کا ذریعہAFP

  • مصنف, سوتک بسواس
  • عہدہ, نام نگار برائے انڈیا، بی بی سی
  • 2 گھنٹے قبل

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کو سڑک پر کسی جانور کو باندھنے، پتنگ اڑانے، سکول میں حاضری چھوڑنے یا دودھ پلانے کی صلاحیت نہ رکھنے والی ماں کو دودھ پلانے کی بوتل دینے کے مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جی ایسا انڈیا میں ہو سکتا ہے کیونکہ وہاں کے 882 وفاقی قوانین میں سے 370 میں فوجداری دفعات شامل ہیں جن میں مجموعی طور پر 7305 کاموں اور غلطیوں کو جرم قرار دیا گیا ہے۔

ان میں مضحکہ خیز سے لے کر سنگین نوعیت کے جرائم تک شامل ہیں۔

جیسے کہ ملازمت چھوڑنے سے پہلے ایک ماہ کا نوٹس نہ دینا، اپنے کتے کو مناسب چہل قدمی نہ کروانا، غیر قانونی اسلحہ رکھنے، قتل اور جنسی حملے جیسے جرائم شامل ہیں۔

دہلی میں قائم تھنک ٹینک ودھی سینٹر فار لیگل پالیسی نے اسے ‘ انڈیا میں حد سے زیادہ جرائم کا بحران’ قرار دیا ہے۔

تھنک ٹینک نے اپنی ایک نئی رپورٹ ‘دی سٹیٹ آف دی سسٹم: انڈیا میں جرائم اور سزا کے پیمانے کو سمجھنا’ میں ملک کا پہلا جامع ڈیٹا بیس تیار کیا ہے، جس میں 370 وفاقی قوانین میں جرائم کی حد کا نقشہ بنایا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں انڈیا کی اس عادت کو اجاگر کیا گیا ہے کہ وہ فوجداری قانون کے ذریعے ہر چیز کو حل کرتا ہے، یہاں تک کہ دنیاوی معاملات کو بھی۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے قوانین ‘معمول، روزمرہ کے کاموں’ کو جرم قرار دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ پر عوامی سڑک پر اپنی بکری کو باندھنے، لائسنس کے بغیر لیک ہونے والے نل کو ٹھیک کرنے یا پوچھے جانے پر عمارت کے مالک کا نام بتانے کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔

کچھ جرم تو بہت غیر واضح ہیں، جیسے والدین کا سکول میں حاضری کے حکم کو نظر انداز کرنا، پابندی لگنے کے بعد ڈرائیونگ لائسنس کے لیے درخواست دینا یا چڑیا گھر میں کچرا پھینکنا۔

بنیادی طور زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہو کوئی نہ کوئی مجرمانہ سزا آپ کی طاق میں ہے۔

Residents fly Kites in Delhi as the sun sets bringing a breeze on the 73rd Independence Day of India on August 15, 2019.

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اپنےمویشی کو کسی کھیت یا سڑک پر گھومنے دیں اور آپ پر 10 روپے جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔

چڑیا گھر میں کسی جانور کو پریشان کریں یا کوڑا کرکٹ پھیکنیں؟ چھ ماہ قید یا دو ہزار روپے جرمانہ۔۔۔ اور اپنے کتے کو ورزش کروانے میں ناکام رہنے پر آپ کو 100 روپے جرمانہ اور تین مہینے تک جیل ہوسکتی ہے۔

حاملہ خواتین یا ماؤں کو بچوں کے دودھ کے متبادل یا دودھ پلانے کی بوتلیں دینے پر تین سال قید یا پانچ ہزار روپے جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ (اس کا مقصد فارمولا فوڈ کمپنیوں کی طرف سے جارحانہ مارکیٹنگ کو روکنا تھا ، لیکن یہ قانون افراد پر بھی لاگو ہوتا ہے ، جو اسے متنازع بناتا ہے۔)

انڈیا میں 73 فیصد جرائم میں ایک دن سے لے کر 20 سال تک قید کی سزا ہوتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 117 قوانین کے تحت 250 سے زائد جرائم میں دستاویزات جمع کرانے میں تاخیر کو سزا دی جاتی ہے جن میں دولت اور پراپرٹی ٹیکس ریٹرن سے لے کر گفٹ ڈیکلیریشن تک سب کچھ شامل ہے۔

80 قوانین کے تحت تقریبا 124 جرائم میں سرکاری افسر کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔

یہاں تک کہ موت کی سزا بھی ختم نہیں ہے، نہ صرف قتل یا بغاوت کے لیے بلکہ تیل یا گیس کی پائپ لائن کو نقصان پہنچانے یا ڈیوٹی پر سوتے ہوئے پکڑے جانے والے سنتری کے لیے۔

مجموعی طور پر انڈیا میں 301 جرائم قانونی طور پر آپ کی جان لے سکتے ہیں۔

مرکزی قوانین کے تحت 7305 جرائم میں سے تقریبا 80 فیصد جرمانے کے ساتھ آتے ہیں جو دو روپے سے لے کر پانچ کروڑ روپے تک ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بہت سی دفعات شاذ و نادر ہی استعمال کی جاتی ہیں۔ انڈیا کا کرائم ریکارڈ بیورو تقریبا 50 قوانین کو ٹریک کرتا ہے، حالانکہ 370 میں مجرمانہ سزائیں ہیں۔

ودھی سینٹر فار لیگل پالیسی میں اس مطالعے کے شریک مصنف نوید محمود احمد نے مجھے بتایا، ‘کتابوں میں اتنی تعداد موجود ہے کہ کسی بھی شخص کو کسی تکنیکی عدم تعمیل کی پاداش میں جیل بھیج دیا جائے۔ اس کا اصل استعمال کم ہے اور غلط استعمال کا امکان زیادہ ہے۔’

Huge crowd of visitors watch the Tiger at Veermata Jijabai Bhosale Udyan and Zoo, Byculla, on May 19, 2022 in Mumbai, India

،تصویر کا ذریعہAFP

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجداری قانون کا حد سے زیادہ استعمال نہ صرف عام شہریوں کی روزمرہ زندگی میں خلل ڈالتا ہے بلکہ کاروباری سرگرمیوں کے لیے بھی اہم رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں کاروباری اداروں کو قواعد و ضوابط کی بھول بھلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن عدم تعمیل کے لیے فوجداری قانون کو ڈیفالٹ کے طور پر استعمال کرنا حد سے زیادہ، غیر متناسب اور اکثر غیر پیداواری ہے۔

رپورٹ میں جرم اور سزا میں کچھ واضح تضادات کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے۔

فسادات، غیر قانونی اجتماع کے ذریعہ طاقت کا استعمال یا تشدد پر دو سال تک قید کی سزا ہے تاہم سرکاری ریکارڈ کے لیے پیدائش یا موت کی غلط اطلاع دینے سے تین سال قید ہوسکتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عوامی سطح پر تشدد کو کاغذ پر جھوٹ بولنے کے مقابلے میں کم سزا ملتی ہے۔

اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ بہت مختلف نوعیت کے جرائم میں ایک ہی سزا دی جاتی ہے۔ جیسے بغیر لائسنس کے ہومیوپیتھی کی مشق کرنا، ریڈ لائٹ عبور کرنا، یا کسی کو مزدوری پر مجبور کرنا، یہ سب جرم ایک سال کی سزا کے مستحق ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روزمرہ کی زندگی اور کاروبار سے منسلک جرائم کی بڑی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ ریاست فرما برادری کو نافذ کرنے کے لیے افعال کو جرائم قرار دینے پر کتنا انحصار کرتی ہے۔

‘یہ حد سے زیادہ انحصار نہ صرف شہریوں اور کاروباری اداروں کے لیے بلکہ ریاستی مشینری کے لیے بھی مہنگا ثابت ہوتا ہے۔’

انڈیا کی عدالتوں میں 3کروڑ 40لاکھ سے زائد فوجداری مقدمات زیر التوا ہیں جن میں سے 72فیصد ایک سال سے زائد عرصے سے التوا کا شکار ہیں۔

جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 131 فیصد ہے جبکہ عدالتوں اور پولیس فورسز کو عملے کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

 People ready to welcome the new year backdrop of new year. Mumbai Police are seen Checking vehicles entering Mumbai at Mumbai Entry Point Mulund Toll Naka , in Thane, on December 31, 2024 in Mumbai, India.

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہاں تک کہ لا اینڈ آرڈر مشینری بھی کم ہے۔ یکم جنوری 2023 تک انڈیا میں ہر ایک لاکھ افراد پر صرف 154 پولیس اہلکار تھے جو منظور شدہ 195 سے کافی کم ہیں۔

ملک بھر میں 27 لاکھ 20 ہزار کی منظور شدہ تعداد کے مقابلے میں 581,000 عہدے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘اس کے باوجود، ہم معمولی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے اس اضافی بوجھ والے نظام پر انحصار کرتے رہتے ہیں، جن میں معمولی جرمانے بھی شامل ہیں۔’

اس میں کہا گیا ہے کہ فوجداری قانون کو ان کاموں تک محدود کیا جانا چاہیے جو بنیادی معاشرتی اقدار جیسے عوامی تحفظ ، قومی سلامتی ، زندگی ، آزادی ، جائیداد اور معاشرتی ہم آہنگی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ وہ 100 سے زائد قانونی دفعات میں مجرمانہ سزاؤں کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ صرف قانونی صفائی نہیں ہے۔ یہ اس بات پر دوبارہ غور کرنے کا ایک موقع ہے کہ قانون لوگوں کے ساتھ کیسے برتاؤ کرتا ہے۔

کم خوف، زیادہ اعتماد. کم مشتبہ، زیادہ شہری۔

SOURCE : BBC