SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, خدیجہ عارف
- عہدہ, بی بی سی، لندن
-
ایک گھنٹہ قبل
آپ نے کسی کو کل دیکھا ہو اور آج صبح اٹھتے ہی جو پہلی خبر ملے وہ یہ کہ اس شخص کی وفات ہو گئی ہے تو دل کو دھچکا سا لگتا ہے۔ پھر چاہے وہ شخص آپ کا جاننے والا ہو یا کوئی غیر یا پھر کوئی معروف شخصیت۔
اپنے عزیر کی وفات پر غم ہوتا ہے اور اگر کوئی انجانا یا سلیبریٹی ہو تو غیر یقینی کی کیفیت بار بار یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ ’ارے کل تک تو ٹھیک تھے۔‘
میں آج کچھ اسی طرح کی کیفیت سے دوچار ہوں۔
آج صبح آنکھ کھلتے ہی موبائل سکرین پر نظر پڑی تو پوپ فرانسس کی 88 سال کی عمر میں وفات کی خبر سن کر نہ صرف افسوس ہوا بلکہ بے ساختہ منھ سے یہ نکلا کہ ’ارے ہم نے تو انھیں کل ہی دیکھا تھا اور وہ ٹھیک لگ رہے تھے۔‘

کل دوپہر میں اور میرا خاندان ویٹیکن سٹی میں تھے جو کہ دنیا کی سب سے چھوٹی خودمختار ریاست ہے اور یہ اٹلی کے شہر روم سے گھری ہوئی ہے۔
میں نے بہت قریب سے پوپ فرانسس کو سینٹ پیٹرز باسیلیکا کی مشہور بالکونی سے ہزاروں عقیدت مندوں کو ایسٹر کی مبارکباد دیتے دیکھا تھا اور فوراً سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈال کر سب کو اپنے اس تجربے کے بارے میں بتا بھی دیا تھا۔
پوپ فرانسس کو ایک وہیل چیئر میں بالکونی میں لایا گیا جہاں انھوں نے وہاں موجود عقیدت مندوں کی طرف ہاتھ ہلایا اور کہا ’میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں! آپ سب کو ہیپی ایسٹر۔‘
یہ سن کر وہاں موجود عقیدت مندوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
سب لوگ تالیاں بجا رہے تھے اور ہر شخص کے چہرے پر ایک ایسی خوشی تھی جس کو بیان کرنا مشکل ہے۔
شاید وہ لوگ اس لیے اور بھی زیادہ خوش تھے کیونکہ پوپ فرانسس ایک لمبے وقت سے بیمار تھے اور ایک ایسا موقع بھی آیا تھا جب ان کے بچنے کی امید کم رہ گئی تھی۔ لیکن وہ صحت یاب ہوگئے تھے۔
پوپ فرانسس نے ایسٹر کی مبارکباد دی لیکن ان کا ایسٹر کا خطاب چرچ کے ایک سینیئر رکن نے پڑھا۔ خطاب اطالوی زبان میں تھا اس لیے مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا لیکن جب اسرائیل اور غزہ جیسے الفاظ سنائی دیے تو یہ ضرور لگا کہ انھوں نے غزہ میں جاری جنگ کا ذکر کیا ہے۔
پوپ فرانسس غزہ جنگ پر ماضی میں بھی افسوس اور تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ وہ جنگ کو ختم کرنے پر زور دے چکے تھے اس لیے مزید پڑھنے پر معلوم ہوا کہ انھوں نے ایک بار پھر ایسٹر کے موقع پر غزہ میں جنگ بندی پر زور دیا اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی بات کی۔
عالمی امن کے حامی پوپ فرانسس کو کل دیکھنا اور آج ان کی وفات میری طرح بہت سارے لوگوں کے لیے ایک حیران کن سی بات ہے۔

روم میں دو دن رُکنے کا یادگار اتفاق

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
آگے بڑھنے سے پہلے میں بتا دوں کہ میں ویٹیکن سٹی نہ تو ایسٹر منانے اور نہ ہی پوپ کے دیدار کے لیے گئی تھی۔ یہ محض ایک اتفاق تھا۔ ایک یادگار اتفاق۔
تو ہوا یوں کہ اکثر بچوں کی سکول کی چھٹیوں میں ہم انھیں لے کر انڈیا جاتے ہیں اور اپنے رشتے داروں سے مل ملا کر واپس لندن آ جاتے ہیں۔ آج تک کچھ بھی ایسا نہیں ہوا جس کے بارے میں لکھا جائے۔ لیکن اب کی بار بچوں کے اصرار پر ہم نے واپسی میں دو دن کے لیے روم میں رُکنے کا فیصلہ کیا۔
روم میں رُکنے کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔ بس اتنا تھا کہ روم کے راستے انڈیا جانے والی فلائٹ کا ٹکٹ قدرے سستا اور آسانی سے دستیاب تھا۔
لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ دو دن سے کم کا قیام ایک یادگار اور تاریخی واقعہ بن جائے گا۔
ہم روم سنیچر کی صبح پہنچے۔ ہمارا ہوٹل ویٹیکن سٹی سے پیدل صرف سات منٹ کی دوری پر واقع تھا۔ ہوٹل خوب صورت اور آرام دہ تھا اس لیے دل کو خوشی اور سکون تھا۔ لیکن جس چیز نے ہمیں سب سے زیادہ تعجب میں ڈالا وہ تھی وہاں سیاحوں کی غیر معمولی آمد و رفت۔ ہوٹل کی کھڑکی سے لوگوں کا ہجوم دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی میلے میں ہوں۔
شروع میں تو یہ سمجھ نہیں آیا کہ اتنے سارے لوگ آخر جا کہاں رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ کیا روم سیاحوں کے درمیان اتنا مقبول ہے؟ اور کیا یہاں ہمیشہ اتنی ہی بھیڑ ہوتی ہے؟ یہ سوالات ذہن میں آ رہے تھے۔
لیکن پھر پتا چلا کہ یہ لوگ ’ایسٹر سنڈے‘ منانے ویٹیکن آئے ہوئے ہیں۔
مجھے اعداد و شمار کا تو نہیں پتا لیکن وہاں لاکھوں افراد موجود تھے اور شہر ہر عمر اور ہر نسل کے لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ دکانوں اور ریستورانوں کے باہر لمبی قطاریں تھیں اور یہاں تک کہ روم کی جس مشہور جیلاٹو کی دکان سے میرے بچے آئس کریم کھانے کے خواب دیکھ رہے تھے وہ تک انھیں نصیب نہیں ہوئی کیونکہ آئس کریم کی دکان کے باہر کبھی نہ ختم ہونے والی ایک لمبی قطار تھی۔
سنیچر کا دن تو صرف بھیڑ سے بچتے بچاتے جتنا شہر دیکھ سکتے تھے اسے دیکھنے میں گزر گیا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہجوم کے پیچھے پیچھے چلتے رہے
اتوار کے دن ہم نے ویٹیکن شہر جانے کا فیصلہ کیا۔
یہ ایک جوش نما دن۔ ہر طرف دھوپ اور جہاں دیکھو لوگوں کی بھیڑ تھی۔ بڑی تعداد میں پولیس والے موجود تھے لیکن وہ صرف سڑک کے کناروں پر کھڑے تھے۔ ایک بڑی بھیڑ ویٹیکن کی طرف گامزن تھی اور اس سے زیادہ لوگ سڑک کے دونوں کناروں اور گلیوں میں بنے کیفے اور ریستوران میں کافی اور کیکس کا مزہ لے رہے تھے۔
روم کی ہر عمارت اور ہر دیوار ایک فن کا نمونہ لگتی ہے۔ یہاں تک کہ یہاں کی کھڑکیاں، چوکھٹیں اور دروازوں بھی کسی آرٹ کے نمونے سے کم نہیں۔
بس اسی رونق کا لطف لیتے ہوئے جب ہم نے ہوٹل سے ویٹیکن کی طرف چلنا شروع کیا تو ہمیں اس بات کا گمان نہیں تھا کہ ہم ویٹیکن میں پوپ فرانسس کو دیکھیں گے۔
ہم نے سوچا تھا کہ بس جائیں گے اور تاریخی ویٹیکن کا لطف لے کر واپس آئے جائیں گے اور پھر دیگر عمارتیں دیکھ کر ایئرپورٹ کا رُخ کریں گے۔
جیسے ہی ہم ویٹیکن کے مرکزی گیٹ پر پہنچے وہاں ہزاروں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر سر پکڑ لیا اور منھ سے بے ساختہ نکلا ’ارے بھائی کوئی چانس ہی نہیں ہے کہ ہم اندر داخل ہوسکیں۔‘
پھر ہم نے دیکھا کہ وہاں موجود پولیس لوگوں سے دائیں طرف جانے کا اشارہ کر رہی ہے۔
ہمیں دوری اور زبان کی عدم سمجھ بوجھ سے یہ تو نہیں پتا چلا کہ پولیس والے کیا کہہ رہے تھے بس اشارہ سمجھ کر وہاں رُکے نہیں اور ہجوم کے پیچھے پیچھے چلنا شروع کر دیا۔
یہ ہجوم ویٹیکن کے ایک گیٹ سے دوسرے گیٹ پر جاتا اور وہاں سے پولیس اسے دوسری طرف جانے کو کہتی۔ ہم بھی ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
قریب 10، 15 منٹ چلنے کے بعد ہم ویٹیکن کے ایک ایسے گیٹ پر پہنچے جہاں سے داخلے کی اجازت تھی اور یہ گیٹ سینٹ پیٹرز باسیلیکا کے عین سامنے واقع تھا۔ اندر گھستے ہی ایک بڑے ہجوم کے درمیان ایک بڑی سکرین پر میں نے پوپ فرانسس کو بالکونی میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ یہ دیکھتے ہی میرے اندر کا چھوٹا موٹا صحافی جاگ اُٹھا اور میں اپنے بچوں کو اپنے خاوند کے حوالے کر کے اپنے موبائل سے ویڈیو بناتے ہوئے بالکونی کے اتنا قریب چلی گئی جتنا ممکن تھا۔
ہزاروں لوگوں کی موجودگی کے باوجود لوگوں نے مجھے راستہ دیا اور میں نے دیکھا میں اس جگہ پہنچ گئی جہاں پوری دنیا کے صحافی پوپ فرانسس کے ایسٹر خطاب کے بارے میں لائیو رپورٹنگ کر رہے تھے جس میں بی بی سی کے نمائندے میں شامل تھے۔
پوپ فرانسس کو دیکھنے اور سننے والوں میں نہ صرف بوڑھے اور نوجوان شامل تھے بلکہ چھوٹے بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی۔
میں نے پوپ فرانسس کو ہمیشہ تصاویر اور نیوز رپورٹس میں دیکھا تھا۔ ہمیشہ سفید لباس میں ملبوس اور لوگوں کو شفقت کی نظر سے دیکھتے اور چومتے ہوئے پوپ فرانسس کی شبیہ ایک مشفق اور خاکسار شخصیت کی تھی۔
میں نے کبھی نہیں سوچا تھا ایک دن اچانک ان کو ایسٹر سنڈے کے خاص موقع پر دیکھوں گی۔ وہ بھی تب جب وہ مہینوں کی بیماری کے بعد صحتیاب ہو رہے تھے اور صحافیوں تک کو اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی تھی کہ وہ بالکونی میں آ کر عقیدت مندوں کو ایسٹر کی مبارکباد دیں گے یا نہیں۔
پوپ فرانسس کو ان کی وفات سے چند گھنٹوں پہلے دیکھنا اور سننا وہاں موجود عقیدت مندوں کے لیے ایک بے حد روحانی اور مذہبی تجربہ ہوگا۔ لیکن میرے لیے ایک صحافی کے اعتبار سے ان کے اس تاریخی خطاب میں موجود ہونا ہمیشہ یاد رہے گا۔
SOURCE : BBC