Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر نے مریض کے باپ کی ’بِنا تصدیق سرجری...

سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر نے مریض کے باپ کی ’بِنا تصدیق سرجری کر دی‘

4
0

SOURCE :- BBC NEWS

ڈاکٹر نے بیٹے کی تیمار داری کے لیے موجود باپ کی ’بِنا تصدیق سرجری کر دی‘

،تصویر کا ذریعہMohar Singh Meena

  • مصنف, موہر سنگھ مینا
  • عہدہ, بی بی سی ہندی کے لیے، جیپور
  • 3 گھنٹے قبل

انڈیا کی ریاست راجستھان کے ایک سرکاری ہسپتال پر سنگین لاپرواہی کا الزام اس وقت سامنے آیا جب ایک خاندان نے دعویٰ کیا کہ زخمی بیٹے کی تیمار داری کے لیے موجود باپ کی بغیر تصدیق سرجری کی گئی ہے۔

یہ باپ ٹریفک حادثے میں زخمی اپنے بیٹے کی دیکھ بھال کے لیے کوٹا میڈّیکل کالج میں موجود تھا۔

متاثرہ خاندان کا الزام ہے کہ ہسپتال انتظامیہ نے 12 اپریل کو پیش آنے والے اس واقعے کی خبروں کو پانچ دن تک دبایا۔ ان کا کہنا ہے کہ بزرگ شہری نہ تو ہسپتال میں داخل تھے اور نہ ہی انھیں کوئی جسمانی پریشانی تھی۔

اس معاملے میں ضلع کے مہاویر نگر پولیس سٹیشن میں شکایت درج کرائی گئی ہے جبکہ میڈیکل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر سنگیتا سکسینہ نے معاملے کی مکمل تحقیقات کے بعد کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔

یہ معاملہ آخر ہے کیا؟

کوٹا ڈویژن کے باران ضلع کے رہنے والے 33 سالہ منیش پنچال تین ماہ قبل ٹریفک حادثے میں زخمی ہوئے تھے اور تب سے وہ کوٹا میڈیکل کالج میں زیرِ علاج ہیں۔

انھیں سرجری کے لیے ایک سرکاری ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ان کے والد جگدیش پنچال ان کی دیکھ بھال کے لیے ہسپتال میں موجود تھے۔

12 اپریل کی صبح منیش کو آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔ باہر ان کے والد آپریشن مکمل ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے منیش پنچال کا کہنا تھا کہ ‘جب میں سرجری کے بعد باہر آیا تو میرے والد باہر نظر نہیں آئے۔ کچھ دیر بعد جب وہ واپس آئے تو میں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘پھر انھوں نے بتایا کہ آپریشن تھیٹر سے طبی عملے نے ‘جگدیش’ کا نام پکارا۔ جب وہ وہاں گئے تو انھیں بغیر پوچھے بے ہوشی کا انجکشن دیا گیا۔’

‘جگدیش کے بائیں ہاتھ پر چیرا لگایا گیا اور ان کا آپریشن کیا گیا۔ انھیں تقریباً چھ ٹانکے لگائے گئے۔’

ڈاکٹر نے بیٹے کی تیمار داری کے لیے موجود باپ کی ’بِنا تصدیق سرجری کر دی‘

،تصویر کا ذریعہMohar Singh Meena

متاثرہ خاندان کا ڈاکٹر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

خاندان کو اس واقعے کا علم اس وقت ہوا جب انھوں نے 17 اپریل کو ایک مقامی اخبار میں شائع خبر پڑھی۔ اس کے بعد منیش کے بڑے بھائی شراون پنچال سیدھا کوٹا ہسپتال پہنچے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہسپتال انتظامیہ نے پانچ دن تک معاملے کو دبائے رکھا۔’

انھوں نے الزام لگایا کہ ‘معاملے کو دبانے کے لیے ہسپتال انتظامیہ نے میرے بھائی اور والد کو دھمکیاں بھی دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہسپتال کی لاپرواہی اتنے عرصے تک سامنے نہیں آ سکی۔’

شراون کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے والد کو نہ تو ہسپتال میں داخل کرایا گیا اور نہ ہی ہسپتال میں بطور مریض ان کا نام درج کیا گیا۔ ہمارے والد کو کوئی چوٹ نہیں آئی تھی۔ پھر ایک صحت مند شخص کی سرجری کر دی گئی۔ یہ ہمارے والد کے ساتھ ناانصافی ہے، ہم انصاف چاہتے ہیں۔’

متاثرہ کے اہل خانہ نے مہاویر نگر پولیس سٹیشن میں 17 اپریل کو تحریری شکایت دائر کی۔

شکایت میں سرجری کرنے والے ڈاکٹر راجندر مہاور اور دیگر طبی عملے کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

شراون کا کہنا ہے کہ ‘آپریشن کرنے والے ڈاکٹر راجندر مہاور اور دیگر طبی عملے کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ جب ڈاکٹروں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے میرے والد سے کہا کہ وہ اس بارے میں کسی کو نہ بتائیں۔’

انھوں نے کہا کہ ‘لاپرواہی کے مرتکب طبی عملے کے خلاف کارروائی کی جائے، قصوروار ڈاکٹر کو نوکری سے برخاست کیا جائے، ہمارے خاندان کو بھی مالی معاوضہ دیا جائے۔’

یہ معاملے عام آدمی پارٹی کے ضلعی صدر ایڈوکیٹ کنج بہاری سنگھل کے اچانک دورے کے دوران منظر عام پر آیا۔

مریضوں سے بات کرنے کے بعد انھوں نے ضلعی کلیکٹر سے ڈاکٹروں اور ہسپتال انتظامیہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے ہسپتال انتظامیہ پر کیس کو دبانے اور متاثرین کو دھمکیاں دینے کا بھی الزام لگایا۔

ڈاکٹر نے بیٹے کی تیمار داری کے لیے موجود باپ کی ’بِنا تصدیق سرجری کر دی‘

،تصویر کا ذریعہMohar Singh Meena

ہسپتال انتظامیہ نے کیا کہا؟

میڈیا رپورٹس اور احتجاج کے بعد کوٹا میڈیکل کالج انتظامیہ حرکت میں آگئی اور تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔

میڈیکل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر سنگیتا سکسینہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد مناسب کارروائی کی جائے گی۔’

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ‘ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ کو اس معاملے کے بارے میں تب ہی پتا چلا جب ایڈوکیٹ کنج بہاری نے ان نے مطالبہ کیا۔ میں نے ان سے اس معاملے پر ایک کمیٹی بنانے اور حقائق پر مبنی رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔’

ڈاکٹر سکسینہ نے اعتراف کیا کہ ‘مریض کے داخل ہونے اور اس کی فائل تیار ہونے کے بعد ہی آپریشن کیا جاتا ہے۔

‘کمیٹی کی رپورٹ کے بعد ہی اس معاملے میں کچھ کہا جا سکتا ہے۔’

دوسری جانب مہاویر نگر تھانے کے انچارج رمیش کاویہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہمیں اہل خانہ کی جانب سے شکایت موصول ہوئی ہے۔ ہم نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ اگر تحقیقات میں غفلت کے ثبوت ملے تو قواعد کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔’

SOURCE : BBC