Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں ’ڈرگ رزسٹینس‘ کیا ہے جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں بچوں...

’ڈرگ رزسٹینس‘ کیا ہے جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں بچوں کی اموات کی وجہ ہے؟

4
0

SOURCE :- BBC NEWS

بچے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ڈومینک ہوگس
  • عہدہ, نامہ نگار برائے گلوبل ہیلتھ
  • 3 گھنٹے قبل

کیا ایسا تو نہیں کہ آپ اپنے بچے کی بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کی جانب سے تجویز کے بغیر خود سے گھر پر ہی کوئی اینٹی بائیوٹک دوا دے رہے ہیں؟ یا آپ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا کو وقت سے پہلے ہی بند کر رہے ہیں، یا پھر اس کی مقدار اپنی مرضی سے بڑھا رہے ہیں یا کم کر رہے ہیں؟

بچوں کی صحت پر تحقیق کرنے والے دو سرکردہ ماہرین کی ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2022 میں دنیا بھر میں 30 لاکھ سے زیادہ بچوں کی اموات ‘ڈرگ رزسٹینس’ کی وجہ سے ہوئیں۔ ایسا تب ہوتا ہے جب بیکٹیریا یا دوسرے مائیکروبز اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیں اور ادویات اثر کرنا چھوڑ دیں۔

اس معاملے میں افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا کے بچوں میں سب سے زیادہ خطرہ دیکھا گیا ہے۔

انسانوں میں کسی بھی انفیکشن کے خلاف دوا کے کم اثر کرنے کی حالت کو اینٹی مائیکروبیل مزاحمت یعنی اے ایم آر کہا جاتا ہے۔

اے ایم آر یعنی اینٹی بائیوٹک ادوایات کے خلاف مزاحمت جسم میں اس وقت شروع ہوتی ہے جب انفیکشن کا سبب بننے والے پیتھوجینز اتنے مضبوط ہو جائیں کہ اینٹی بائیوٹک ادویات اثر کرنا بند کر دیں۔

اسے عالمی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ایک نئے مطالعہ میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ اے ایم آر اب بچوں کی جان لے رہا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت ڈبلیو ایچ او اور ورلڈ بینک سمیت متعدد ذرائع سے حاصل کردہ اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے رپورٹ کے مصنفین نے اندازہ لگایا ہے کہ سنہ 2022 میں 30 لاکھ سے زیادہ بچوں کی موت ادویات کے خلاف مزاحمت کے انفیکشن سے ہوئی تھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تین سال تک ہونے والی یہ تحقیق بچوں میں اے ایم آر کے متعلق انفیکشن میں دس گنا سے زیادہ اضافے کو نمایاں کرتی ہے۔

Anti biotics

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اینٹی بائیوٹکس کا بڑھتا استعمال

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اینٹی بایوٹکس کا استعمال بہت حد تک بیکٹیریل انفیکشن کے علاج یا روک تھام کے لیے کیا جاتا ہے، جلد کے انفیکشن سے لے کر نمونیا تک ہر طرح کے مرض کے لیے اینٹی بائیوٹکس استعمال ہوتے ہیں۔

اینٹی بایوٹکس کو بعض اوقات انفیکشن کے علاج کے بجائے احتیاط کے طور پر بھی دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اسے کسی مریض کے آپریشن یا کینسر کی کیموتھراپی کا علاج کروانے والے مریض کو بھی دیا جاتا ہے۔

اینٹی بایوٹکس کا عام سردی، فلو یا کووڈ جیسی بیماریوں یعنی وائرل انفیکشن پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔

اینٹی بایوٹکس کے زیادہ اور نامناسب استعمال کی وجہ سے کچھ بیکٹیریا اب ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکے ہیں جبکہ نئی اینٹی بائیوٹکس کی پیداوار ایک طویل اور مہنگا عمل ہے۔

آسٹریلیا میں مرڈوک چلڈرن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر یانہونگ جیسیکا ہو اور کلنٹن ہیلتھ ایکسیس انیشی ایٹو کے پروفیسر ہرب ہارویل اس رپورٹ کے مرکزی مصنفین ہیں۔

وہ اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں نمایاں اضافہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کا مقصد صرف انتہائی سنگین انفیکشن کی روک تھام ہے۔

سنہ 2019 اور 2021 کے درمیان ’واچ اینٹی بائیوٹکس‘ میں مزاحمت کے لیے زیادہ خطرہ والی ادویات میں جنوب مشرقی ایشیا میں 160 فیصد اور افریقہ میں 126 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اسی عرصے کے دوران ’ریزرو اینٹی بائیوٹکس‘ یعنی وہ اینٹی بایوٹکس جن کا استعمال آخری حربے کے طور پر کیا جاتا ہے ان میں جنوب مشرقی ایشیا میں 45 فیصد اور افریقہ میں 125فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

’بچوں کو دوا دینے یا بند کرنے میں عجلت سے پرہیز کریں‘

اسلام آباد کے ماہر اطفال ڈاکٹر محسن حسن ایک چائلڈ سپیشلسٹ ہیں جن کا کہنا ہے اکثر والدین بچے کی بیماری کی صورت میں یا تو دوا بند کرنے میں جلد بازی کرتے ہیں یا ایک کے بعد دوسرے ڈاکٹر سے دوا لینے میں عجلت کرتے ہیں اور ایسا کرنے سے بچوں میں دوا کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پروٹوکول کے مطابق ڈاکٹر بھی فوری طور پر بنا ٹیسٹ کے کوئی اینٹی بائیوٹک نہیں دے سکتا بشرطیکہ بچے کو شدید بخار ہو اور اس کی عمر تین ماہ سے کم ہو اور ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ بچے کی جان کو خطرہ نہ ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں عموماً اینٹی بائیو ٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مائیں بچوں کو خود سے دوا دیتی ہیں لیکن انھیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ڈاکٹر کی جانب سے بچوں کو دوا ان کے وزن کے حساب سے تجویز کی جاتی ہے۔

بچے کو جب ان کے وزن کو دیکھے بغیر لو ڈوز میں یا ہائی ڈوز میں دوا دی جاتی ہے تو بچوں میں اینٹی مائکروبیل مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر محسن کا خیال ہے کہ پاکستان میں اے ایم آر کو کنٹرول کرنے کے لیے جہاں والدین کی رہنمائی کی ضرورت ہے وہیں ڈاکٹرز کو بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ویکسین بچوں کو کسی بیماری اور انفیکشن سے بچانے کا پہلا بہترین حل ہے۔

’دوسرے والدین کو بتانا چاہیے کہ دو سے تین دن تک انتظار کرنا چاہیے فوری یہ جانے بغیر کہ وائرل انفیکشن ہے یا بیکٹیریل انفیکشن ہے انیٹی بائیوٹک مت دیں۔ پھر ٹیسٹ کر لیں اور نتیجے کا انتظار کریں۔‘

کم ہوتے آپشن

ڈاکٹر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس تحقیقی رپورٹ کے مصنفین نے خبردار کیا ہے کہ اگر بیکٹیریا ان اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کرتے ہیں تو ملٹی ڈرگ مزاحم انفیکشن کے علاج کے لیے بہت کم متبادل بچيں گے۔

پروفیسر ہارویل اس ماہ کے آخر میں ویانا میں یورپی سوسائٹی آف کلینیکل مائیکروبائیولوجی اور متعدی امراض کی کانگریس میں اس تحقیق کے نتائج پیش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اے ایم آر ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یہ سب کو متاثر کرتا ہے۔ ہم نے یہ کام واقعی اس غیر متناسب طریقے پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے کیا جس میں اے ایم آر بچوں کو متاثر کرتا ہے۔‘

’ہمارے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 30 لاکھ بچوں کی اموات اے ایم آر کے سبب ہیں۔‘

اے ایم آر کا کوئی حل ہے؟

بچے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈبلیو ایچ او اے ایم آر کو عالمی صحت کے سب سے سنگین خطرات میں سے ایک کے طور پر بیان کرتا ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔

پروفیسر ہارویل نے خبردار کیا کہ اس مسئلہ کا کوئی آسان حل نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک کثیر الجہتی مسئلہ ہے جو طب کے تمام پہلوؤں تک پھیلا ہوا ہے۔ اینٹی بایوٹکس ہمارے ارد گرد ہر جگہ موجود ہیں‘

انھوں نے مزید کہا کہ مزاحم انفیکشن سے بچنے کا بہترین طریقہ انفیکشن سے مکمل طور پر بچنا ہے، جس کا مطلب ہے کہ حفاظتی ٹیکوں کی اعلی سطح، پانی کی صفائی اور حفظان صحت کی ضرورت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اینٹی بایوٹکس کا استعمال بہت زیادہ ہونے والا ہے کیونکہ بہت لوگ ہیں جن کو ان کی ضرورت ہے، لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کا مناسب استعمال کیا جائے اور صحیح دوائیں استعمال کی جائیں۔‘

کنگز کالج لندن میں مائکرو بایولوجی کے سینئر لیکچرر ڈاکٹر لنڈسے ایڈورڈز نے کہا کہ نئی تحقیق ’پچھلے اعداد و شمار کے مقابلے میں ایک اہم اور تشویشناک اضافے کی نشاندہی کرتی ہے۔‘

ماہرین حفاظتی ٹیکوں اور درست علاج کے علاوہ یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ ماں کا دودھ بچوں کو سب سے زیادہ قوت مدافعت فراہم کرتا ہے۔ جو بچے ماں کا دودھ پیتے ہیں وہ بہت سی بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔

SOURCE : BBC