Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں ہائیپوگیمی: وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند خواتین جو اپنے سے...

ہائیپوگیمی: وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند خواتین جو اپنے سے کم قابل مردوں سے رشتہ جوڑنے پر مجبور ہیں

3
0

SOURCE :- BBC NEWS

خواتین، پاکستان، شادی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, سیلن گریٹ
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
  • ایک گھنٹہ قبل

خواتین کا شادی کرنا ایک زمانے سے سماجی وطیرہ رہا ہے۔ اب چاہے وہ پریوں کی کلاسیکی کہانی میں سنڈریلا اور پرنس چارمنگ ہو یا پھر معروف انگریزی ناول نگار جین آسٹن کے ناول ’پرائڈ اینڈ پریجڈس‘ کے مرکزی کردار الزبتھ بینیٹ اور مسٹر ڈارسی کی شادیاں کیوں نہ ہوں۔

لیکن جیسے جیسے خواتین زیادہ تعداد میں اعلیٰ تعلیم اور مالی خودمختاری حاصل کر رہی ہیں ان روایتی رویوں میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔

اور اسی کے متعلق آسٹریا کی یونیورسٹی آف ویانا سے تعلق رکھنے والی ماہرِ عمرانیات نادیہ سٹائبر کہتی ہیں کہ ‘آج کے نوجوانوں میں ایک بڑھتا ہوا عدم توازن نظر آ رہا ہے، کیونکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے۔’

اس کا نتیجہ یہ نظر آ رہا ہے کہ اگرچہ زیادہ تر خواتین ایسے شریکِ حیات کی خواہاں ہوتی ہیں جو تعلیمی یا معاشرتی لحاظ سے ان کے برابر ہو لیکن انھیں اکثر دوسرے درجے کے انتخاب پر سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے جسے پارٹنرنگ ‘ڈاؤن’ یا کم تر رشتہ کہا جا رہا ہے۔

سماجی علوم میں اس رجحان کو ‘ہائپوگیمی میں اضافے’ طور پر بیان کیا جاتا ہے۔

شادی کی تقریب

،تصویر کا ذریعہkkshepel/Getty Images

ہائپوگیمی کیا ہے؟

ہائپوگیمی سے مراد سماجی، معاشی یا تعلیمی حیثیت میں خود سے کم تر کسی شخص سے شادی کرنا یا رومانوی تعلق قائم کرنا ہے۔

روایتی طور پر اس کا الٹ ہائپرگیمی زیادہ عام اور سماجی طور پر قابل قبول رہا ہے رہا ہے جس میں عورت کسی اعلیٰ حیثیت والے مرد سے رشتہ کرتی ہے۔ ثقافتی طور پر خواتین کو ہمیشہ ایسے مردوں کی تلاش کی ترغیب دی گئی ہے جو مالی طور پر مستحکم، عمر میں بڑے یا تعلیم یافتہ ہوں۔

سنڈریلا جوتی کو آزمانے کے لیے تیار

،تصویر کا ذریعہHistorical Picture Archive

برطانوی ماہرِ عمرانیات اور لندن کے تھنک ٹینک سیویٹاس میں پروفیسر کی سطح کی فیلو محقق کیتھرن ہاکم کہتی ہیں کہ ‘تاریخی طور پر، لڑکوں کو لڑکیوں کی نسبت زیادہ تعلیم دی جاتی تھی کیونکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ انھیں کام کرنا ہے جبکہ لڑکیاں گھریلو کام سیکھتی تھیں۔’

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ‘میاں بیوی کے درمیان عمر اور تعلیم کا بڑا فرق مردانہ بالادستی کو فروغ دیتا رہا۔ لیکن اب مرد و زن کے درمیان تعلیمی برابری جدید اور خوشحال معاشروں کی پہچان ہے۔’

اعداد و شمار میں تبدیلی

حالیہ اعداد و شمار اس بدلتی ہوئی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ سنہ 2023 میں پیو ریسرچ سنٹر کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ میں 24 فیصد خواتین ایسی ہیں جن کی تعلیم ان کے شوہروں سے زیادہ تھی جبکہ سنہ 1972 میں یہ شرح 19 فیصد تھی۔

اسی تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ 29 فیصد شادیوں میں میاں بیوی تقریباً ایک جتنا کماتے تھے۔ اگرچہ پرانا ماڈل اب بھی غالب ہے، جس میں آدھے سے زیادہ مرد مرکزی یا واحد کمانے والے ہوتے ہیں لیکن 16 فیصد شادیوں میں یہ کردار خواتین نے سنبھالا ہوا تھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ پچھلے پچاس برسوں میں ایسی خواتین جن کی آمدنی ان کے شوہروں کے برابر یا اس سے زیادہ تھی ان کی تعداد تقریباً تین گنا ہو گئی ہے۔

فنکار کولن فرتھ اور جینیفر اہلے نے مسٹر ڈارسی اور الیزابیتھ بینٹ کا کردار نبھایا ہے

،تصویر کا ذریعہMark Lawrence/TV Times

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

یہ تبدیلیاں پرانی صنفی روایات کو چیلنج کر رہی ہیں اور تعلقات کی توقعات کو دوبارہ تشکیل دے رہی ہیں، جس سے اکثر موجودہ حقیقت اور پرانی سماجی ترجیحات کے درمیان ایک قسم کی کشمکش پیدا ہو رہی ہے۔

اگنائٹ دیٹنگ کی میچ میکر مشیل بیگی کہتی ہیں: ‘اگرچہ کچھ خواتین اب بھی سماجی و معاشی طور پر بہتر شریکِ حیات کی تلاش میں ہوتی ہیں، لیکن بہت سی خواتین روایتی حیثیت کے معیار کے بجائے اب جذباتی ہم آہنگی، مشترکہ اقدار اور باہمی احترام کو اہمیت دیتی ہیں۔’

وہ کہتی ہیں کہ ‘یہ نیا رجحان برابری پر مبنی تعلقات کی طرف ایک وسیع تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے، جہاں رشتے میں درجہ بندی والے ڈھانچے کے بجائے شراکت اور ذاتی خوشی کو اہمیت دی جاتی ہے۔’

مز ہاکم کے مطابق یورپ اور شمالی امریکہ میں تعلیمی برابری اب سب سے عام رجحان بن چکی ہے۔

وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘تقریباً نصف، بلکہ بعض اوقات تین چوتھائی جوڑوں میں تعلیمی برابری پائی جاتی ہے۔ تقریباً ایک تہائی خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ شوہر کا انتخاب کرتی ہیں، جبکہ تقریباً پانچواں حصہ مردوں کا ایسا ہوتا ہے جو تعلیم میں اپنی بیویوں سے کم ہوتے ہیں۔ لہٰذا تعلیمی برابری اب معمول بن چکی ہے۔’

عالمی معیار

اگرچہ مغربی معاشروں میں ‘ہائپوگیمی’ (یعنی خواتین کا کم تعلیمی یا سماجی حیثیت والے مردوں سے شادی کرنا) اب زیادہ نمایاں رجحان نظر آ رہا ہے لیکن دنیا کے بہت سے حصوں میں اب بھی ‘ہائپرگیمی’ (یعنی خواتین کا بہتر حیثیت والے مردوں سے شادی کرنا) غالب رجحان ہے۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ سے تعلق رکھنے والی ماہرِ عمرانیات سونالڈے دیسائی کہتی ہیں کہ ہندو مذہبی کتابوں میں ایک ہی ذات میں شادی کرنے کو افضل قرار دیا گیا ہے لیکن وہاں ‘انُلوما’ شادی کی اجازت ہے جس میں مرد کسی نچلی ذات کی عورت سے شادی کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس ‘پرتیلوما’ شادی یعنی مرد کا اپنے سے کسی اونچی ذات کی عورت سے شادی کرنا ممنوع ہے۔

ایک خوش و خرم جوڑا

،تصویر کا ذریعہMarcoVDM/Getty Images

وہ بتاتی ہیں کہ انڈیا میں اب بھی زیادہ تر شادیاں والدین یا رشتہ داروں کے ذریعے طے کی جاتی ہیں اور تقریباً 95 فیصد شادیاں اپنی اپنی ذات میں انجام پاتی ہیں۔ اخبارات میں شائع ہونے والے شادی کے اشتہارات میں عموماً دلہے سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ عمر میں بڑا، قد میں لمبا اور کم از کم دلہن کے برابر تعلیم یافتہ ہو۔

وہ مزید کہتی ہیں: ‘تاہم تحقیقی شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ‘ہائپوگیمی’ میں رفتہ رفتہ اضافہ ہو رہا ہے اور ایسی شادیاں ہو رہی ہیں جن میں عورت مرد سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔’

ایران بھی اس رجحان کی ایک نمایاں مثال ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے اس ملک میں خواتین مین یونیورسٹی تعلیم کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود معاشرے میں اب بھی مردوں کو بنیادی کفالت کرنے والا سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بہت سی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو ایسا شریکِ حیات تلاش کرنے میں مشکل پیش آتی ہے جو ‘قابل قبول’ ہوں اور ایسے میں وہ بعض اوقات غیر شادی شدہ رہ جاتی ہیں۔

نوجوان تعلیم یافتہ ایرانی خواتین سر پر سکارف کے ساتھ

،تصویر کا ذریعہGrigorev_Vladimir/Getty Images

لیکن نئی نسل کی خواتین برسوں سے چلی آ رہی روایتی توقعات کو چیلنج کر رہی ہیں۔ وہ ذاتی خودمختاری، کریئر اور اس بات کو اہمیت دے رہی ہیں کہ آج کے ایرانی معاشرے میں ایک رشتہ کا مطلب کیا ہونا چاہیے۔

چین میں حقارت امیز اصطلاح ‘شینگ نو’ (چھوٹ جانے والی عورتیں) اُن اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو 20 کے آخر یا 30 کی دہائی تک شادی نہیں کر پاتیں۔ جاپان میں بھی خواتین نے شادی میں تاخیر کرنا یا اسے مکمل طور پر ترک کرنا شروع کر دیا ہے کیونکہ وہ مالی طور پر خودمختار ہو چکی ہیں اور روایتی صنفی کرداروں کا بوجھ اٹھانا نہیں چاہتیں۔

اس کے برعکس ناروے اور سویڈن جیسے ممالک ایک مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان ممالک میں مضبوط صنفی برابری کی پالیسیاں، فیاضانہ زچگی و پدری کی چھٹیاں اور خواتین کی بھرپور معاشی شمولیت کی وجہ سے برابری پر مبنی رشتے عام ہیں۔

مز سٹیبر کہتی ہیں کہ ‘ہر معاشرے میں سماجی دباؤ کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔’

وہ کہتی ہیں کہ ‘مغرب میں، اگرچہ خواتین اپنے شوہروں سے زیادہ نہیں کماتیں لیکن اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے ان کی معاشرتی حیثیت اچھی ہوتی ہے۔ ان کے پاس فیصلہ کرنے کی طاقت ہوتی ہے اور وہ گھریلو فیصلوں میں برابر کی شریک ہوتی ہیں جبکہ بعض دوسرے معاشروں میں ایسا کم ہی دیکھا جاتا ہے۔’

سوشل میڈیا کے اثرات

اگرچہ عملی طور پر ہائپرگیمی یعنی بہتر سماجی یا مالی حیثیت کے شریکِ حیات کا رجحان کم ہو چکا ہے مگر سوشل میڈیا پر یہ اصطلاح اب بھی مقبول ہے اور اکثر کسی امیر یا بااثر شخص کو لبھانے کے طریقوں کے بارے میں مشورے اور ٹپس دیکھنے کو ملتے ہیں۔

‘پاسپورٹ بروز’ اور ‘ٹریڈ وائف’ (یعنی روایتی گھریلو بیوی) جیسے وائرل رجحانات ہائپر گیمی کو دوبارہ ترویج دیتے نظر آتے ہیں۔ ‘پاسپورٹ بروز’ میں مغربی مرد ایسے ممالک میں شریک حیات تلاش کرتے ہیں جہاں روایتی صنفی کرداروں کو اپنایا جاتا ہے جبکہ ‘ٹریڈ وائف’ (روایتی گھریلو بیوی) کی تحریک کے تحت سوشل میڈیا پر اثر و رسوخ رکھنے والی خواتین گھریلو زندگی کو فروغ دینے اور خواتین کو دولت مند شوہروں کی تلاش کی ترغیب دیتی ہیں۔

خوبصورت بیوی گھر کی صفائی کرتی ہوئی

،تصویر کا ذریعہsturti/Getty Images

مز بیگی کہتی ہیں: ‘یہ تحریکیں اکثر روایتی ازدواجی زندگی کی خواہش کی عکاسی کرتی ہیں، اور بعض اوقات ہائپرگیمی کے ڈھانچے کو مثالی بنا کر پیش کرتی ہیں۔’

وہ مزید کہتی ہیں کہ ‘یہ سب جدید دور کے تعلقات کے پیچیدہ پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے، جہاں افراد ذاتی خودمختاری اور معاشرتی توقعات کے درمیان توازن قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں، اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ کس قدر مختلف طریقوں سے اپنے تعلقات میں اطمینان تلاش کرتے ہیں۔’

تاہم مس سٹیبر سنہ 1950 کی دہائی کے روایتی صنفی کرداروں کے پھر سے رواج میں آنے کے متعلق شکوک و شبہات رکھتی ہیں حالانکہ وہاں ہائپرگیمی کو صرف قابلِ قبول ہی نہیں بلکہ قابلِ رشک بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘یہ رجحان شاید سوشل میڈیا کے چند مخصوص انفلوئنسرز میں دیکھا جائے، مگر مجموعی آبادی کے رجحانات اس طرف بالکل اشارہ نہیں کرتے ہیں۔’

’زیادہ کمانے والی بیویاں عام نہیں‘

مز سٹیبر یہ بھی کہتی ہیں کہ جب خواتین کسی کم تعلیم یافتہ یا کم آمدنی والے مرد سے تعلق قائم کرتی ہیں تو یہ اکثر مردوں کے لیے کشمکش کا باعث بنتا ہے کیونکہ یہ روایتی مردانگی کے تصور کو چیلنج کرتا ہے۔

وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘مسئلہ یہ نہیں کہ خواتین کم پر سمجھوتہ کر رہی ہیں، بلکہ یہ ہے کہ آیا مرد اس بات کو قبول کر سکتے ہیں کہ ان کی شریکِ حیات ان سے زیادہ تعلیم یافتہ یا کامیاب ہوں۔’

تجارت میں خواتین

،تصویر کا ذریعہPeopleImages

کچھ ماہرینِ عمرانیات کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے خواتین کی تعلیم کا معیار بلند ہو رہا ہے ویسے ویسے معاشرتی ڈھانچے خاموشی سے روایتی صنفی کرداروں کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، جیسے تنخواہوں میں فرق، جزوقتی ملازمت کی ترویج، یا ایسے کام کے ماحول جو کریئر اور ماں بننے کے درمیان توازن قائم کرنا مشکل بنا دیتے ہیں اور اس طرح مردوں کی معاشی بالادستی کو تقویت ملتی ہے۔

مز ہاکم کہتی ہیں: ‘ہر جگہ مرد عموماً اپنی بیویوں سے زیادہ کماتے ہیں کیونکہ بیویاں اور مائیں اکثر جزوقتی یا ایسی نوکریاں کرتی ہیں جن میں تسلسل نہیں ہوتا ہے۔’

وہ مزید کہتی ہیں: ‘یہاں تک کہ ‘برابری پر مبنی’ سکینڈینیویائی (شمالی یورپی) ممالک میں بھی شوہر اوسطاً گھر کی آمدنی کا تین چوتھائی حصہ کماتے ہیں۔ زیادہ کمانے والی خواتین یا بیویاں عام نہیں ہیں بلکہ استثنی ہیں اور شاذونادر کے زمرے میں آتی ہیں۔’

SOURCE : BBC