SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, کراؤڈ سائنس پروگرام
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
-
7 گھنٹے قبل
کیا انسان فطری طور پر ایک ساتھی کے ساتھ ہی زندگی گزارنے کا عادی ہے؟ یہ سوال اس لیے اہمیت اختیار کر رہا ہے کیونکہ دنیا میں تعلقات کی نوعیت میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور ڈیٹنگ ایپس پر بے شمار آپشنز دستیاب ہیں۔
لندن میں رہنے والی علینا کا جب ایک سے زیادہ پارٹنرز والے لوگوں سے واسطہ پڑا تو وہ یہ سب دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ پولیمیری ایک ایسا تصور ہے کہ جس میں رضامندی سے ایک سے زیادہ پارٹنرز سے ازدواجی تعلقات قائم کیے جاتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے حال ہی میں ایک ایسے شخص سے ملاقات کی جس کے زیادہ پارٹنرز ہیں اور وہ ہمیشہ سے ایسے رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’میں صرف یہ جاننا چاہتی تھی کہ ہم نے بطور معاشرہ ایک ہی ساتھی کے انتخاب کو کیوں عام بنایا؟‘
انسانی ارتقائی رفتار کو سمجھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم گوریلا اور اس کی تولیدی ’سٹریٹیجی‘ کا مطالعہ کریں کیونکہ اس جانور کو سائنسی اعتبار سے انسانوں کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی کے ارتقا سے متعلق ماہر حیاتیات کٹ اوپی کا کہنا ہے کہ ’گوریلا ایک ایسا جانور ہے جس میں ایک نر کئی مادوں کے ساتھ رہتا ہے۔‘
’ایسے تعلقات میں جو بچے پیدا ہوتے ہیں، گروپ کے سارے نر مل کر بطور والد اس بچے کی پرورش کرتے ہیں۔ مگر ان بچوں کی مائیں الگ الگ ہوتی ہیں۔‘
تاہم یہ ایک موثر تولیدی سٹریٹیجی نہیں ہے۔
ڈاکٹر کٹ اوپی کا کہنا ہے کہ یہ حکمت عملی دراصل بڑی تعداد میں شیرخوار بچوں کے قتل کا سبب بن جاتی ہے یعنی نر وہ بچے مار ڈالتا ہے جن سے اس کا خون کا رشتہ نہیں ہوتا تاکہ مائیں جلد دوبارہ حمل کے قابل ہو جائیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
لیکن چمپینزی اور بونوبوس کی حکمت عملی مختلف ہے۔
ان کی ماداؤں کے کئی نروں کے ساتھ بچے ہوتے ہیں جس سے ولدیت الجھ کر رہ جاتی ہے اور ان کے بچوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
انسانوں نے شاید اسی طرح کے نظام کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا یعنی ایک گروپ کی صورت میں متعدد خواتین و حضرات نے ایک دوسرے سے رضامندی سے ازدواجی تعلقات قائم کر لیے۔ تاہم تقریباً 20 لاکھ برس قبل اس رواج میں تبدیلی واقع ہوئی۔
ڈاکٹر کٹ اوپی کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ’ماحولیاتی تبدیلی تھی۔‘
ان کے مطابق سب صحارا افریقہ جہاں ہمارے آباؤ اجداد رہتے تھے وہاں خشک سالی ہوئی اور بڑے علاقے گھاس کے میدانوں میں بدل گئے۔
ڈاکٹر کٹ اوپی کے مطابق اس وقت کے انسانوں کو شکاری جانوروں سے بچنے کے لیے بڑے گروپس میں رہنا پڑا۔ ان پیچیدہ گروہوں کو سنبھالنے کے لیے ان کے دماغ کے سائز بڑے ہوئے اور بچوں کو دودھ پلانے کا دورانیہ بھی طویل ہو گیا۔
لیکن بڑے گروہوں میں بہت زیادہ مردوں کے ساتھ، ولدیت کا الجھانا زیادہ مشکل ہو گیا۔
عورتوں کے لیے اپنے بچوں کی پرورش کی غرض سے مردوں میں سے صرف کسی ایک کی مدد کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس لیے انھوں نے ایک پارٹنر کا انتخاب کیا۔
کیا ایک شریک حیات کی حکمت عملی بہتر ہے؟
ڈاکٹر کٹ اوپی کے مطابق یہ تبدیلی اس لیے ضروری نہیں تھی کہ ایک پارٹنر ہی ’بہتر‘ انتخاب تھا بلکہ ایسا اس لیے تھا کہ یہ واحد قابل عمل آپشن تھا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
بڑے دماغ اور سست نشوونما کے ساتھ انسانی اولاد کی پرورش کے لیے والدین کی بہت زیادہ وسائل اور طاقت کی ضرورت ہوتی تھی۔ اب یہ اکیلی ماں کے بس سے باہر تھا۔
اگرچہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ابتدائی انسانوں نے ایک ساتھی کا ہی انتخاب کیا مگر پھر ایسا کرنے سے اپنے جیون ساتھی سے وفاداری نبھانے کا چیلنج درپیش رہتا ہے۔
ڈاکٹر کٹ اوپی کا کہنا ہے کہ ’ایسے جاندار یا نسلیں ہیں جو اپنی پوری زندگی ایک ساتھی کے ساتھ گزارتی ہیں اور بے وفا نہیں ہوتیں۔ لیکن وہ بہت کم ہیں۔‘
ہماری قریب ترین نسل جو ایک ساتھی کے فلسفے پر عمل پیرا ہے وہ لنگور کی ہے۔ چونکہ لنگور دوسرے جوڑوں سے الگ ہوتے ہیں اور نر اور مادہ کے لیے یہ کنٹرول کرنا شاید آسان ہے کہ کون ان کے رین فارسٹ یعنی برساتی جنگل کے چھوٹے حصے میں داخل ہوتا ہے اور کون نہیں۔
لیکن جب آپ انسانوں کی طرح ایک بڑے گروپ میں رہتے ہیں جس میں کئی مرد اور کئی خواتین ہیں تو اس کی کڑی نگرانی بہت مشکل ہوجاتی ہے کہ آپ کا ساتھی بے وفا ہے یا نہیں۔
اس نقطہ نظر سے ایک پارٹنر والی ازدواجی زندگی ایک فطری معمول سے زیادہ بقا کی حکمت عملی بن کر رہ جاتی ہے۔ اس میں متعدد موروثی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔
مضبوط بندھن کی علامت
اس وقت ہمارے دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے جب ہمیں محبت ہو جاتی ہے یا ہم وفاداری جتانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
ایموری یونیورسٹی میں نیورو سائنس میں پی ایچ ڈی کی طالبہ سارہ بلومینتھل چوہوں کی ایک نسل پریری وولز پر تحقیق کر رہی ہیں جو انسان کی طرح دیر پا ساتھ نبھانے کے لیے مشہور ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
چوہوں کی دوسری نسلوں کے برعکس پریری وولز میں دماغ کے ’ریوارڈ سینٹرز‘ میں آکسیٹوسن ریسپٹرز کی اعلی سطح ہوتی ہے۔
آکسیٹوسن، جسے اکثر ’کڈل ہارمون‘ کہا جاتا ہے، دماغ میں جسمانی ملاپ اور مضبوط بندھن کے لمحات کے دوران خارج ہوتا ہے۔
سارہ بلومینتھل کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم تجرباتی طور پر پریری وولز میں آکسیٹوسن سگنلنگ میں خلل ڈالتے ہیں تو پھر ایسے میں وہ مضبوط بندھن بنانے اور اپنے ساتھی کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کے قابل نہیں رہتے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
انسانوں میں اسی طرح کے آکسیٹوسن سسٹم ہوتے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے دماغوں کو مضبوط بندھن کی خاطر ڈیزائن کیا گیا ہے۔
لیکن ایک اور دوسرا کیمیکل، ڈوپامین، ہماری خواہشات میں تبدیلیوں کی وضاحت کر سکتا ہے۔
مضبوط بندھن کے ابتدائی مراحل کے دوران ڈوپامین دماغ کو کھول دیتی ہے، کشش اور کشادگی پیدا کرتی ہے۔ مضبوط تعلق یا بندھن قائم ہونے کے بعد ڈوپامین کے طریقہ کار بدل جاتے ہیں۔
زیادہ شوہر رکھنے والی خواتین
ایک پارٹنر سے رشتوں کی ارتقا کے نظریے کے باوجود انسانی ثقافتوں نے ہمیشہ تعلقات کی وسعت کو ظاہر کیا ہے۔
شکاگو میں یونیورسٹی آف الینوائے کی ماہر بشریات ڈاکٹر کیٹی سٹارک ویدر نے ایشیا میں نیپال اور تبت سے لے کر افریقہ اور امریکہ کے کچھ حصوں تک ایک عورت کے متعدد شوہر ہونے کے 50 سے زیادہ واقعات کو ریکارڈ کا حصہ بنایا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اگرچہ زیادہ شوہروں کے مقابلے زیادہ بیویوں کا رجحان زیادہ رہا ہے تاہم سٹارک ویدر نے خبردار کیا ہے کہ اسے ناقابل تصور نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
خواتین کو ایک سے زیادہ پارٹنرز رکھنے سے مالی طور پر فائدہ ہو سکتا ہے۔ اگر ان کے پہلے شوہر کی موت ہو جاتی ہے یا اسے طویل عرصے کے لیے دور رہنا پڑتا ہے، جیسا کہ کچھ مقامی امریکی گروپوں کے ساتھ ہوتا ہے، تو ان کی رائے میں ایسے میں ’بیک اپ پلان‘ رکھنا واقعی ضروری تھا۔
کچھ معاملات میں ایک سے زیادہ پارٹنرز سے تعلق قائم کرنے کے جینیاتی فوائد بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔
سٹارک ویدر کہتی ہیں کہ ’ایسے ماحول میں جہاں لوگ بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں اور بیماریوں سے مر جاتے ہیں، یہ بہت فائدہ مند ہو سکتا ہے کہ بہت سے بچے جن کا جینیاتی ’میک اپ‘ تھوڑا مختلف ہو تو ایسا ماحول ان کے لیے بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔‘
تاہم ایسے افراد کے لیے چیلنجز بھی ہوتے ہیں۔ زیادہ پارٹنرز سے تعلقات برقرار رکھنے کے لیے وقت، جذباتی توانائی اور گفت و شنید کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس بحث سے ہٹ کر کہ آپ مرد ہیں یا عورت، متعدد پارٹنرز سے تعلقات برقرار رکھنا انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ مالی اور جذباتی طور پر مشکل ہے۔
سٹارک ویدر کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے ایک ساتھی سے شادی کا تصور زیادہ عام ہے۔‘
ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کا چیلنج
علینا کے معاملے میں پچھلے رشتے میں ان کا ایک پارنٹر والا تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔ اب جبکہ وہ ایک سے زائد پارٹنرز سے تعلق قائم رکھے ہوئے ہیں تو ایسے میں وہ پیچیدہ جذبات سے نبرآزما ہیں۔
وہ یہ مانتی ہیں کہ ’حسد بہت مشکل اور طاقتور عنصر بن سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اگر کوئی میرے ساتھ وفادار نہیں ہے تو پھر جذبات کی یہی صورتحال ہوتی ہے اور ایک بار جب مجھے معلوم ہو جائے کہ وہ مجھ سے وفادار ہیں تو اس سے مجھے حسد پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ان کے پارٹنر بھی ان سے متفق ہیں۔ ’میں کہوں گا کہ حسد سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ میں کہوں گا کہ متعدد صحت مند تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے جو وقت اور محنت درکار ہوتی ہے، وہ قدرے مشکل چیز ہے۔‘
دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ وہ اس قابل ہیں کہ ایک دوسرے کو خوش اور پرسکون رکھ سکیں۔ علینا کہتی ہیں کہ اس حوالے سے ’کوئی پہلے سے طے شدہ اصول نہیں۔‘
ان کے مطابق یہ تعلق آپ کو بات چیت کرنے پر آمادہ کرتا ہے جو آپ عمومی طور پر نہیں کرتے اور ’اس سے ہمارے تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔‘
تو کیا ہم فطری طور پر ایک شریک حیات کے قائل ہیں؟ جواب ہاں اور ناں دونوں ہے۔
دنیا بھر کی ثقافت اور تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ انسانوں نے مختلف تعلقات کے ماڈل تیار کیے ہیں جو ان کے سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی حالات کے مطابق ہوتے ہیں۔
کچھ لوگوں کے لیے ایک سے زیادہ پارٹنرز رکھنے سے جذباتی آزادی اور مالی مدد ملتی ہے۔ دوسروں کے لیے ایک شریک حیات محبت کے لیے سب سے آسان اور قابل انتظام طریقہ ہے۔
ڈاکٹر سٹارک ویدر کہتی ہیں کہ انسان میں لچک پائی جاتی ہے اور وہ مزاج میں ہٹ دھرم نہیں اور ’یہی کچھ ہمارا دوسروں سے تعلق اور شادی کرنے کا طریقہ بھی ظاہرکرتا ہے۔‘
’ہم اس کرہ ارض پر ہر طرح کے ماحول میں رہتے ہیں اور ایسا ہماری لچک اور رویے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔‘
SOURCE : BBC