SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہX/Shehbaz Sharif
- مصنف, انبارسن ایتھیراجن
- عہدہ, بی بی سی نیوز
-
ایک گھنٹہ قبل
رواں ماہ کے اوائل میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان چار روزہ جھڑپ بالآخر جنگ بندی پر ختم ہوئی جس میں دونوں نے اپنی اپنی فتح کا دعویٰ کیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ چین کی دفاعی صنعت بھی اس میں ایک غیر متوقع فاتح کے طور پر سامنے آئی۔
تازہ جھڑپوں کا آغاز سات مئی کو اس وقت ہوا جب انڈیا نے 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں 26 افراد کی ہلاکت کے جواب میں پاکستان کے اندر موجود ’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘ پر حملے کیے۔
دہلی نے اسلام آباد پر عسکریت پسند گروہوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا تاہم پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
انڈیا نے پہلگام کے جواب میں کیے جانے والے اپنے حملے کو ’آپریشن سندور‘ کا نام دیا جس کے بعد دونوں ممالک کی جانب سے جوابی فوجی اقدامات کیے گئے جن میں ڈرونز، میزائلیں اور لڑاکا طیارے شامل تھے۔
رپورٹس کے مطابق انڈیا نے فرانسیسی اور روسی ساختہ طیارے استعمال کیے جبکہ پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر تیار کرنے والے اپنے جے 10 اور جے17 لڑاکا طیارے استعمال کیے۔
فریقین کا کہنا ہے کہ ان کے طیاروں نے سرحد پار نہیں کی اور فاصلے سے ہی ایک دوسرے پر میزائل داغے تھے۔
اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے کم از کم چھ انڈین طیارے مار گرائے، جن میں انڈیا کے نئے حاصل کردہ فرانسیسی ساختہ رفال بھی شامل ہیں۔ دہلی نے ابھی تک ان دعووں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
انڈین فضائیہ (آئی اے ایف) کے ایئر مارشل اے کے بھارتی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’جنگ میں نقصان معمول کی بات ہے‘ لیکن انھوں نے پاکستانی دعوے پر براہ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے اپنے اہداف حاصل کر لیے ہیں اور ہمارے تمام پائلٹ گھر واپس آ چکے ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
انڈیا کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستان میں موجود کالعدم لشکر طیبہ اور جیش محمد تنظیموں کے ہیڈ کوارٹرز کو نشانہ بنا کر کم از کم ’100 دہشت گردوں‘ کو ہلاک کیا۔
فضائی جنگ کی اصل حقیقت تاحال سامنے نہیں آئی۔ کچھ میڈیا اداروں نے انڈین پنجاب اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں طیارہ گرنے کی رپورٹس دی ہیں لیکن انڈیا کی حکومت نے ان پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ میں امریکی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پاکستان نے ممکنہ طور پر چین کے تیارہ کردہ جے 10 طیارے کا استعمال کرتے ہوئے انڈین طیاروں پر فضائی حملے کیے۔
پاکستان نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ اس نے چینی ہتھیاروں پر انحصار کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ بعض ماہرین کے مطابق اسے بیجنگ کی دفاعی صنعت کے لیے ایک کامیابی سمجھا جا رہا ہے جبکہ بعض ماہرین اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔
کچھ ماہرین نے اس صورتحال کو چین کی ہتھیاروں کی صنعت کے لیے ’ڈیپ سیک لمحہ‘ قرار دیا۔ خیال رہے کہ رواں سال جنوری میں چینی مصنوعی ذہانت کی ایپ ’ڈیپ سیک‘ نے امریکی کمپنیوں کو سستی ٹیکنالوجی کے ذریعے چونکا دیا تھا۔
چینی پیپلز لبریشن آرمی کے ریٹائرڈ سینیئر کرنل ژو بو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ فضائی لڑائی چین کی دفاعی صنعت کے لیے بڑی تشہیر تھی۔ اس سے قبل چین کو کبھی بھی اپنے پلیٹ فارمز کو جنگی صورت حال میں آزمانے کا موقع نہیں ملا تھا۔‘
بیجنگ میں مقیم تجزیہ کار نے کہا کہ فضائی معرکے کے نتائج نے دکھا دیا کہ ’چین کے پاس کچھ نظام ایسے ہیں جن کا کوئی ثانی نہیں۔‘
گذشتہ ہفتے جب جے 10 لڑاکا طیارے کی انڈیا پاکستان جھڑپ میں کارکردگی کی خبریں سامنے آئیں تو اس طیارے کو بنانے والی چینی ایوی ایشن کمپنی ’چنگڈو ایئرکرافٹ‘ کے حصص میں 40 فیصد تک اضافہ نظر آیا۔
تاہم دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ چینی ہتھیاروں کی برتری کا اعلان کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔

،تصویر کا ذریعہAFP
کنگز کالج لندن کے پروفیسر والٹر لیڈوگ کا کہنا ہے کہ یہ ابھی طے نہیں ہو سکا کہ آیا چینی طیارے واقعی انڈین فضائیہ (آئی اے ایف) کے طیاروں، بطور خاص رفال پر سبقت لے گئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’معیاری فوجی نظریے کے مطابق آپ پہلے دشمن کے فضائی دفاع کو ختم کرتے ہیں اور فضائی برتری حاصل کرتے ہیں، اس کے بعد زمینی اہداف کو نشانہ بناتے ہیں مگر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انڈین مشن کا مقصد پاکستانی فوج کو اشتعال دلانا نہیں تھا۔‘
لیڈوگ کا خیال ہے کہ انڈین پائلٹس کو اس وقت پرواز کا حکم دیا گیا جب پاکستان کا فضائی دفاع مکمل الرٹ پر تھا اور ان کے لڑاکا طیارے پہلے ہی فضا میں موجود تھے۔ انڈین فضائیہ نے مشن کی تفصیلات یا اپنی حکمت عملی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
بیجنگ نے بھی جے 10 کے ذریعے رفال سمیت انڈین طیاروں کو گرانے کی خبروں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن جے 10 کے ذریعے مغربی ہتھیار کو گرانے کی غیر مصدقہ خبروں نے چینی سوشل میڈیا پر خوشی اور فخر کی لہر کو جنم دیا۔
چین کی سکیورٹی امور کی محقق کارلوٹا ریناڈو کا کہنا ہے کہ اگرچہ مکمل معلومات تک رسائی مشکل ہے لیکن چینی سوشل میڈیا پر قومی فخر اور جذبے والے پیغامات کی بھرمار ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’فی الحال حقیقت سے زیادہ اہم تاثر ہے۔ اگر اس زاویے سے دیکھا جائے تو اصل فاتح چین ہے۔‘
پاکستان اور چین کے دہائیوں سے دوستانہ تعلقات ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت چین پاکستان میں 50 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
لہٰذا، ایک کمزور پاکستان چین کے مفاد میں نہیں۔
پاکستانی سکیورٹی تجزیہ کار امتیاز گل کا کہنا ہے کہ چین نے حالیہ انڈیا پاکستان تنازعے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ’چین نے انڈین منصوبہ سازوں کو مکمل طور پر حیران کر دیا۔ انھوں نے شاید پاکستان اور چین کے درمیان جدید جنگی تعاون کی گہرائی کا اندازہ نہیں لگایا تھا۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی طیاروں کی جنگ میں کارکردگی کو مغربی دارالحکومتوں میں بغور دیکھا جا رہا ہے کیونکہ اس کے عالمی اسلحہ کی تجارت پر دور رس اثرات ہو سکتے ہیں۔ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ برآمد کنندہ ہے جبکہ چین چوتھے نمبر پر ہے۔
چین زیادہ تر میانمار اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ ماضی میں چینی ہتھیاروں کو ناقص معیار اور تکنیکی مسائل کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق سنہ 2022 میں برمی فوج نے تکنیکی خرابیوں کے باعث چین پاکستان کے مشترکہ تیار کردہ جے ایف-17 طیاروں کو ترک کر دیا تھا۔ نائجیریا کی فوج نے بھی چینی طیاروں میں کئی تکنیکی مسائل کی شکایت کی تھی۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب انڈیا نے پاکستان کے ہاتھوں اپنا طیارہ کھویا ہو۔
سنہ 2019 میں پاکستان میں مشتبہ دہشت گرد اہداف پر اسی طرح کے انڈین فضائی حملوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ایک مختصر فضائی لڑائی کے دوران ایک روسی ساختہ مگ 21 جیٹ پاکستانی حدود میں مار گرایا گیا اور پائلٹ ابھینندن کو پکڑ لیا گیا، جنھیں پھر رہا کر دیا گیا۔
انڈیا نے بعد میں یہ دعویٰ کیا کہ پائلٹ نے جہاز سے چھلانگ لگانے سے قبل کامیابی سے پاکستانی طیاروں کو مار گرایا جس میں ایک امریکی ساختہ ایف 16 بھی شامل تھا۔ پاکستان نے انڈیا کے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔
پاکستان کی طرف سے کامیابی سے انڈین طیارے گرانے کی اطلاعات کے باوجود والٹر لیڈوگ جیسے ماہرین کا خیال میں انڈیا نے دس مئی کی صبح پاکستان کے اندر بہت اہم اہداف کو نشانہ بنایا مگر یہ حقیقت بین الاقوامی میڈیا پر زیادہ نمایاں نہیں ہو سکی۔

،تصویر کا ذریعہReuters
انڈین فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ایک مربوط حملے میں پاکستان کے 11 ایئربیسز پر میزائل حملے کیے۔ جس میں راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے قریب واقع سٹریٹجک اہمیت کی حامل نور خان ایئربیس بھی شامل ہے۔ دوسرا بڑا حملہ بھولاری ایئربیس پر تھا جو کراچی سے کوئی 140 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔
والٹر لیڈوگ کا کہنا ہے کہ اس بار انڈین فضائیہ نے اپنے ضابطے کے طریقہ کار پر عمل کیا۔ پہلے انھوں نے پاکستان کے ایئر ڈیفنس اور راڈار سسٹمز کو ہدف بنایا اور پھر زمینی اہداف پر توجہ مرکوز کر لی۔
پاکستان کے پاس چینی ایچ کیو 9 جیسے ڈیفنس سسٹم کے ہوتے ہوئے انڈین طیاروں نے پاکستان پر میزائل حملے کیے۔
والٹر لیڈوگ کے مطابق بظاہر یہ حمل نسبتاً درست اور خاص اہداف تک محدود تھے۔ ایئربیسز کے رن ویز کے عین درمیان میں گڑھے بن گئے۔ ان کی رائے میں ’اگر یہ تنازع طوالت اختیار کر جاتا تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ پاکستانی فضائیہ کو ان ایئربیسز کو فعال بنانے کے لیے کتنا وقت درکار ہوتا۔‘
مشن کی بریفنگ کی تفصیلات میں جائے بغیر ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کی فوج بیانیے کی دوڑ میں پیچھے رہ گئی۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ انڈیا کے فضائی حملوں کے جواب میں اس نے انڈیا کی متعدد ایئربیسز پر میزائل اور فضائی حملے کیے۔ نئی دہلی کا کہنا ہے کہ ان حملوں سے آلات یا عملے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جب یہ دیکھا کہ صورتحال اب بے قابو ہوتی جا رہی ہے تو انھوں نے مداخلت کی اور اور دونوں ملکوں پر زور دیا کہ وہ لڑائی روک دیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے لیے یہ سب ’ویک اپ کال‘ ہے یعنی اسے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔
بیجنگ شاید پاکستان اور انڈیا کے درمیاان حالیہ تنازع پر کوئی تبصرہ نہ کرے مگر وہ اس معاملے پر سنجیدہ ہے کہ وہ دنیا کو یہ دکھا سکے کہ اس کے ہتھیاروں کا نظام اب مغرب کے معیار سے کم نہیں۔
نئی دہلی کو اس بات کا علم ہے کہ چین نے پاکستان کو جو طیارے فراہم کیے ہیں یہ وہ پرانے والے ماڈلز میں سے ایک ہیں۔ بیجنگ پہلے ہی اپنے نظام میں جے 20 سٹیلتھ فائٹر طیارے شامل کر چکا ہے جو راڈار سے بچ نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انڈیا اور چین کا دیرینہ سرحدی تنازع چل رہا ہے اور ان کے درمیان سنہ 1962 میں اس پر ایک جنگ بھی ہو چکی ہے جس میں انڈیا کو شکست ہوئی۔ جون 2020 میں لداخ میں ایک مختصر جھڑپ بھی ہو چکی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اسے اپنی مقامی دفاعی مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں سرمایہ کاری میں تیزی لانی ہو گی۔
فی الحال ایسا لگتا ہے کہ چین کی دفاعی صنعت انڈیا پاکستان تنازع میں اپنے طیارے کی کامیابی کے دعوے کا لطف لے رہی ہے۔
SOURCE : BBC