Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں کزن کے ساتھ تعلقات کا الزام: ڈیرہ غازی خان میں ’تالاب میں...

کزن کے ساتھ تعلقات کا الزام: ڈیرہ غازی خان میں ’تالاب میں اتارنے‘ کی رسم نے نوجوان کی جان خطرے میں ڈال دی

4
0

SOURCE :- BBC NEWS

جرگہ، فیصلہ، پاکستان، پنچایت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, شہزاد ملک
  • عہدہ, بی بی سی اردو
  • ایک گھنٹہ قبل

جنوبی پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان کی پولیس ایک غیر قانونی جرگے کے اِن ارکان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے جنھوں نے ایک خاتون کے ساتھ مبینہ جنسی تعلق کے شبے میں ایک شخص کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے 200 فٹ گہرے پانی میں اترنے کا حکم دیا۔

مقامی پولیس نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے متعلق درج ہونے والے مقدمے میں پانچ افراد کو نامزد کیا گیا، جن میں اس غیر قانونی پنچایت یا جرگے کا سرپنچ بھی شامل ہے۔

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں نامزد ملزمان نے مقامی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر رکھی ہے اور انھوں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اس مقدمے کی تفتیش کا حصہ بنیں گے۔

پاکستان کے بعض پسماندہ علاقوں میں مقامی مسائل کے حل کے لیے قانون سے ماورا جرگے یا پنچایت منعقد کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ ان جرگوں کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں مگر مختلف قبائل میں ان پر عملدرآمد کے لیے دباؤ پایا جاتا ہے۔

معاملہ ہے کیا؟

کمانڈنٹ بارڈر ملٹری پولیس محمد اسد چانڈیا نے بی بی سی کو بتایا کہ علاقے کے رہائشی اختر (فرضی نام) نے 18 مئی کو اس واقعے سے متعلق ایف ائی آر درج کرواتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ 15 مئی کو ایک شخص موٹر سائیکل پر اس کے گھر آیا اور کہا کہ انھیں ایک خاتون کے ساتھ مبینہ جنسی تعلقات رکھنے پر ’کالا‘ قرار دیا گیا ہے جس کے بعد وہ اسے (درخواست گزار) کو زبردستی موٹر سائیکل پر بٹھا کر ’آف پانی‘ کی رسم کی ادائیگی کے لیے ایک تالاب پر گئے۔

مدعی مقدمہ کے مطابق ملزمان نے 17 مئی کو قبائل کے بڑوں کے فیصلے کی روشنی میں اسے تالاب میں اترنے کا کہا جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے اس نے تالاب میں چھلانگ لگا دی اور کچھ دیر بعد باہر نکل آیا۔

تاہم اسد چانڈیا کا کہنا ہے کہ مدعی کی طرف سے اس واقعے سے متعلق جو مقدمہ درج کروایا گیا، اس میں اس حوالے سے کسی جرگے کے انعقاد کا کوئی ذکر نہیں کہ یہ جرگہ کہاں پر ہوا تھا۔

اختر کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کی کمر پر رسی بندھی ہوئی ہے اور وہ تالاب میں کود جاتے ہیں اور پھر کچھ دیر کے بعد باہر نکل آتے ہیں جبکہ وہاں پر موجود لوگ کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے ہیں۔

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اسد چانڈیا کا کہنا ہے کہ بارڈر ملٹری پولیس نے اس واقعے سے متعلق جو تفتیش کی، اس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اختر پر اپنی کزن کے ساتھ مبینہ تعلقات رکھنے کا الزام ہے اور اس کے چچا نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ اس کی بیٹی پر ’بُری نظر رکھتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اسی قبیلے کے 10 کے قریب خاندان ایک ہی جگہ پر اکٹھے رہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مقدمے میں نامزد ملزمان مقامی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری کروا کر شامل تفتیش ہو گئے ہیں جبکہ مدعی کو اپنے حق میں گواہ پیش کرنے کا کہا گیا ہے تاہم کمانڈنٹ بارڈر ملٹری پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک مدعی مقدمہ اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے کوئی گواہ پیش نہیں کرسکا۔

عینی شاہدین کے مطابق جس جگہ پر یہ وقوعہ رونما ہوا وہ کوہ سلیمان کا قبائلی علاقہ ہے جہاں پر زیادہ تر بلوچ قبائل رہائش پذیر ہیں اور بارڈر ملٹری پولیس تعینات ہے۔

علاقے کے مکینوں میں سے چند افراد نے رابطہ کرنے پر بی بی سی کو بتایا کہ اختر کے کسی خاتون کے ساتھ مبینہ تعلقات سے متعلق اس قبیلے کے بڑے جمع ضرور ہوئے تھے تاہم اس جرگے میں کیا فیصلے ہوئے، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

جرگہ، فیصلہ، پاکستان، پنچایت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جان سے مارنے کی دھمکی کا الزام

اس واقعے سے متعلق اختر کا ایک ویڈیو بیان بھی سامنے آیا، جس میں انھوں نے دعوی کیا ہے کہ انھیں خاتون کے ساتھ مبینہ جسنی تعلقات رکھنے کی بنا پر ’کالا‘ قرار دیا گیا اور اس کے والد کو کہا گیا کہ وہ دو دن تک اسے (اختر) کو گھر سے نکال دیں، ورنہ ’ہم اسلحے کے ساتھ آئیں گے اور اس کو مار دیں گے۔‘

عینی شاہدین کے مطابق اختر کو جب بڑے تالاب میں کودنے کے لیے کہا گیا تو تالاب کے اردگرد لوگ کافی تعداد میں موجود تھے۔

مقامی صحافی غلام حسن مہر کا کہنا ہے کہ جب اختر کو تالاب میں اترنے کے لیے کہا جا رہا تھا تو اس کی کمر پر رسی باندھ دی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ یہ تالاب دو سو فٹ سے بھی زیادہ گہرا ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ جب اختر تالاب کے اندر کچھ دیر رہنے کے بعد دوبارہ نمودار ہوئے تو قبیلے کے لوگوں نے اس کے حق میں نعرے لگائے۔

اس واقعے کے بعد اختر کے بھائیوں اور قبیلے کے ارکان نے مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ غیر قانونی جرگے کے ان ارکان کے خلاف کارروائی کی جائے جنھوں نے قانون سے ہٹ کر فیصلہ دیا۔

قبائلی رسومات میں ملزم کیخلاف کارروائی کیسے عمل میں لائی جاتی ہے؟

تونسہ کے رہائشی محمد قاسم کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں اگر شادی کے علاوہ مرد اور عورت کے درمیان تعلقات ہوں اور اس کے بارے میں لوگوں کو معلوم ہو جائے تو پھر اس کے خلاف ’کالا کالی‘ کے الزامات کے تحت جرگہ کارروائی کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ کوہ سلیمان میں زیادہ تر بلوچ قبائل آباد ہیں اور ان قبائل کے رسم و رواج آج بھی بہت زیادہ مضبوط ہیں اور کسی بھی حل طلب مسئلے کے لیے ماورائے قانون جرگے کا جو بھی فیصلہ ہوتا ہے، اس پر عملدرآمد کرنا ہر ایک پر لازم ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر کوئی جرگے کے فیصلے سے اختلاف کرے تو اسے باغی قرار دے کر قبیلے سے نکال دیتے ہیں جس کے بعد ایسے شخص کو ’موت کے گھاٹ بھی اتار دیا جاتا ہے۔‘

محمد قاسم کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں کسی کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے دو رسوم عام ہیں جن میں سے ایک ’آف پانی‘ کی رسم ہے جس کے تحت بے گناہی ثابت کرنے کے لیے تالاب میں پھینک دیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ کوہ سلیمان میں قبائلی رسم و رواج کے مطابق جس پر الزام ہو تو اسے چار منٹ تک گہرے پانی میں رہنا ہوتا ہے اور پانی میں رہنے کے دوران سر پانی کے اندر رکھنا ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مقررہ مدت تک اگر وہ پانی کی سطح پر آ جائے تو اسے بےگناہ تصور کیا جاتا ہے۔ ’اگر وہ ڈوب جائے تو اسے قصور وار گردانہ جاتا ہے اور اس کی کمر پر رسی اس لیے باندھی جاتی ہے تاکہ اگر وہ پانی میں ڈوب جائے تو اس کی لاش کو رسی کی مدد سے نکالا جاسکے۔‘

محمد قاسم نے کہا کہ اس علاقے میں دوسری رسم یہ ہے کہ لوہے کا ایک راڈ یا ٹکڑا آگ میں گرم کیا جاتا ہے اور جس پر الزام ہو تو اسے کہا جاتا ہے کہ وہ لوہے کے اس گرم راڈ کو اپنے ہاتھ میں پکڑے اور اس کے ساتھ اس کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس پر تین مرتبہ زبان لگائے۔

محمد قاسم کا کہنا تھا کہ اگر لوہے کا گرم ٹکرا پکڑنے سے ہاتھ جل جائے اور اس کے ہاتھ اور زبان پر آبلے نکل آئیں تو اسے قصور وار تصور کیا جاتا ہے اور اگر اس کے ہاتھ اور زبان جلنے سے محفوظ رہیں تو اس کو بےگناہ خیال کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر ہاتھ اور زبان پر آبلے نمودار ہو جائیں تو پھر غیر قانونی جرگہ اس کو بطور مجرم گردانتے ہوئے سزا سناتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اس علاقے میں ونی کی رسم بھی عام ہے۔

محمد قاسم کا کہنا تھا کہ چوری اور چھوٹے جرائم میں ملوث شخص کو اپنی بےگناہی ثابت کرنے کے لیے لوہے کے راڈ یا لوہے کے ٹکڑے کو ہاتھ میں پکڑایا جاتا ہے جبکہ سنگین نوعیت کے جرائم کے لیے بےگناہی ثابت کرنے کے حوالے سے ’آف پانی‘ کی رسم پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔

کمانڈر بارڈر ملٹری پولیس اسد چانڈیا کا کہنا ہے کہ کوہ سلیمان اور ڈیرہ غازی حان میں یہ رسومات ختم ہوچکی ہیں جبکہ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں یہ قبائلی رسومات ابھی تک زندہ ہیں۔

SOURCE : BBC