Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں ’پورٹر میری والدہ کو اپنی پیٹھ پر لاد کر نیچے لایا‘: پہلگام...

’پورٹر میری والدہ کو اپنی پیٹھ پر لاد کر نیچے لایا‘: پہلگام حملے کے بعد کشمیر کے مسلمانوں نے کس طرح سیاحوں کی مدد کی؟

3
0

SOURCE :- BBC NEWS

پہلگام

،تصویر کا ذریعہGetty Images

2 گھنٹے قبل

انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں 22 اپریل کو ہونے والے حملے کے متاثرین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس دن وہاں کیا ہوا تھا۔ اس حملے میں 26 افراد مارے گئے تھے۔

حملے کے وقت موجود ایک خاندان نے بی بی سی مراٹھی کو بتایا کہ کس طرح ایک مسلمان شخص نے ان کی جان بچائی۔ اس خاندان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلمان پورٹر (خچروں اور گھوڑوں پر مسافروں کو لے جانے والے) نے انھیں جائے وقوعہ سے نکلنے میں مدد کی۔

اس دوران گجرات کے علاقے بھاؤنگر کے رہنے والے وینو بھائی اس حملے میں زخمی ہو گئے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں وہاں بیٹھے ابھی صرف پانچ سے دس منٹ ہی ہوئے تھے کہ فائرنگ شروع ہو گئی۔ اس کے بعد لوگ اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ ہر کوئی اِدھر اُدھر بھاگ رہا تھا۔ کوئی نیچے کود پڑا۔ کسی کا بازو ٹوٹ گیا اور کسی کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔‘

’مجھے بھاگتے ہوئے گولی لگی۔ وہاں بہت سارے لوگ موجود تھے۔ اس وقت وہاں 200 سے 250 کے قریب لوگ موجود تھے۔ صرف ہمارے گروپ کے 20 لوگ تھے۔‘

حملے میں دو دوست مارے گئے

گجرات کے وینو بھائی پہلگام حملے میں زخمی ہو گئے

پہلگام حملے میں انڈین ریاست مہاراشٹر کے شہر پونے کے کوستُبھ گنبوٹے اور سنتوش جگدالے کی موت ہو گئی۔

پونے کے کوستُبھ گنبوٹے اور سنتوش جگدالے کی لاشیں 23 اپریل کی رات پونے ہوائی اڈے پر لائی گئیں۔ 24 اپریل کی صبح جب پونے میں جگدالے کی آخری رسومات ادا کی گئیں تو ان کی بیٹی نے اپنے والد کی آخری رسومات ادا کیں۔

جگدالے اور گنبوٹے دونوں بہت گہرے دوست تھے۔ دونوں نے مل کر سنیکس کا کاروبار شروع کیا اور اس کاروبار کو مختلف جگہوں پر پھیلایا۔

دونوں خاندان ایک ساتھ کشمیر گئے تھے۔ جگدالے جوڑے کے ساتھ ان کی بیٹی آساواری بھی تھیں جبکہ کوستُبھ گنبوٹے اپنی اہلیہ کے ساتھ تھے۔

کوستبھ گنبوٹے کی بیوی سنگیتا نے وہاں پیش آنے والے واقعے کے بارے میں ہمیں بتایا۔

سنگیتا کا کہنا ہے کہ ’اگر جائے حادثہ پر ایک بھی سکیورٹی گارڈ یا پولیس اہلکار تعینات ہوتا تو ہماری مدد ہو جاتی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے گھوڑے والے مسلمان تھے، انھوں نے آخر تک ہمارا ساتھ دیا۔ گھوڑے والے بھی بہت روئے۔ وہ بہت اچھے انسان تھے۔‘

سنگیتا نے کہا کہ ’ایک مسلمان ہمیں بچانے کے لیے آگے آیا لیکن انھوں (حملہ آوروں) نے اسے بھی گولی مار دی۔ اس نے حملہ آور سے پوچھا کہ تم انھیں کیوں مار رہے ہو؟ انھوں نے کیا غلط کیا۔‘

اس کے بعد انھوں نے اس کے کپڑے اتار دیے اور اسے گولی مار دی۔

مہاراشٹر کے پونے کے رہائیشی کوستُبھ گنبوٹے اور سنتوش جگدالے کے اہل خانہ ان کی موت پر افسردہ خاطر ہیں

’جب فائرنگ ہوئی تو میرا ہاتھ اپنے والد کے سر پر تھا‘

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

پہلگام میں حملے میں مارے جانے والے اتل مونے، سنجے لیلے اور ہیمنت جوشی کے اہلخانہ نے ایک پریس کانفرنس کی۔

حملے کے وقت انوشکا مونے اور ہرشد لیلے وہاں موجود تھے۔

سنجے لیلے کے بیٹے ہرشل لیلے نے بتایا کہ ’انھوں نے سب کو بیٹھنے کو کہا۔ پھر پوچھا کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان۔ جب فائرنگ ہوئی تو میرا ہاتھ میرے والد کے سر پر تھا، مجھے اپنے ہاتھ پر کچھ محسوس ہوا، جب میں نے اوپر دیکھا تو میرے والد کا سر پوری طرح سے خون سے لت پت تھا۔‘

’انھوں نے میرے والد کے سر میں گولی ماری تھی۔ پھر مقامی لوگوں نے ہمیں اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے چلے جانے کے لیے کہا۔ گھوڑے کے ذریعے وہاں پہنچنے میں تین گھنٹے لگتے ہیں۔ تمام گھوڑے والے وہاں آ گئے اور جتنا ہو سکا انھوں نے لوگوں کو نیچے اتارنے میں میں مدد کی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمارا پورٹر وہاں پہنچ گیا تھا اور وہ میری والدہ کو اپنی پیٹھ پر لاد کر نیچے لایا۔ باقی لوگ پیدل ہی اتر رہے تھے، ہمیں پیدل اترنے میں چار گھنٹے لگے۔‘

’جس جگہ حملہ ہوا وہاں کوئی سکیورٹی اہلکار یا فوجی موجود نہیں تھے۔ وہاں 100 سے زیادہ سیاح موجود تھے۔ شاید اس سے بھی زیادہ۔ فائرنگ تقریباً پانچ سے دس منٹ تک جاری رہی۔‘

اتل مونے کی اہلیہ انوشکا مونے نے کہا کہ ’ہم دوپہر ایک سے 1.30 بجے کے قریب وہاں پہنچے۔ سب خوش تھے، گرمی تھی اس لیے ہم پانی پینے گئے، ہم نے فائرنگ کی آواز سنی، ہم نے سوچا کہ یہ سیاحتی مقام ہے اور یہاں کچھ کھیل ہو رہا ہوگا، اس لیے ہم نے توجہ نہیں دی‘

’لیکن اچانک فائرنگ شروع ہونے کے بعد سب خوفزدہ ہو گئے۔ پوچھنے لگے کہ کون ہندو اور کون مسلمان ہے؟ ہم میں سے ایک نے حملہ آوروں کو کہا کہ تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟ تو انھوں نے اسے گولی مار دی۔‘

’وہاں موجود لوگ کہہ رہے تھے کہ اپنی جان بچاؤ اور بھاگو۔‘

سجاد نے بی بی سی سے بات کی

’جب میں پہنچا تو خواتین چیخ و پکار کر رہی تھیں اور لاشیں پڑی تھیں‘

ایک مقامی شخص سجاد نے بی بی سی کے ماجد جہانگیر کو بتایا کہ ’ایک بچے نے کہا کہ بھائی کسی طرح ہم کو ہسپتال پہنچا دو اور پانی پلا دو، تو ہم نے انھیں بٹھایا، اس بچے اور اس کی ماں کو پانی پلایا۔‘

سوشل میڈیا پر سجاد کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی، جو اپنی پیٹھ پر ایک بچے کو لے کر پہاڑی سے نیچے کی جانب تیزی سے اتر رہے ہیں۔ سجاد نے بتایا کہ انھوں نے بچے کو ایمبولینس تک پہنچایا اور پھر وہ اپنے گھر چلے آئے۔

سجاد کی طرح بہت سے دوسروں نے بھی اس دن پہلگام میں متاثرین کی مدد کی۔

ایک اور مقامی شخص عبدالوحید نے بتایا کہ ’میں سوا تین بجے کے قریب وہاں پہنچا۔ جب میں پہنچا تو خواتین چیخ و پکار کر رہی تھیں۔ وہاں لاشیں پڑی تھیں، زخمی بھی تھے۔ جوں ہی میں وہاں پہنچا، میں نے انھیں پانی دینا شروع کیا۔‘

’پھر میں نے اپنے واٹس ایپ گروپ پر میسج ڈالا کہ کہ آپ یہاں آ جائیں، یہاں فائرنگ ہوئی ہے اور لوگ زخمی ہیں۔ ہمیں انھیں ہسپتال منتقل کرنا ہے۔‘

مقامی شخص رئیس احمد نے بی بی سی کے ماجد جہانگیر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں 35 سال کا ہوں اور میری زندگی میں ایسا واقعہ پہلی بار رونما ہوا۔ میں صدمے میں ہوں۔ میں نے اپنا آفس کھلا رکھا، آفس کی چابی میرے جیب میں تھی، میں دوڑ کر اوپر چلا گيا۔ راستے میں سیاح بھاگ کر آ رہے تھے۔ وہ بس پانی مانگ رہے تھے اور چلا رہے تھے کہ ہمارے اوپر حملہ ہو گیا۔‘

’ہم نے ان کو دلاسہ دیا، بٹھایا اور کہا کہ آپ سیف زون میں ہیں۔ جو لوگ ڈرے تھے ہم نے پہلے انھیں گھوڑوں پر بٹھایا۔ سب سے پہلے ان کو ریسکو کرایا۔ جو گھوڑے والے بھاگ رہے تھے ان کو واپس بلایا۔‘

SOURCE : BBC