SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہAFP
- مصنف, شہزاد ملک
- عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
-
7 گھنٹے قبل
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمے چلانے کے عمل کو غیرآئینی قرار دیے جانے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کر لی ہیں۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے سات رکنی بینچ نے اس معاملے پر سماعت کے بعد پانچ مئی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو بدھ کو سنایا گیا۔
یہ ایک اکثریتی فیصلہ ہے اور سات رکنی بینچ میں سے پانچ ججوں نے وفاق اور دو صوبائی حکومتوں کی اپیل منظور کیں جبکہ دو نے ان کے خلاف رائے دی۔
جسٹس جمال مندو خیل اور جسٹس نعیم اشتر افغان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اپیلیں خارج قرار دے دیتے ہوئے کہا کہ کہا سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے برخلاف ہے۔
سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے لیے چھ دسمبر 2024 کو جسٹس امین الدین خان کی سرابراہی میں سات رکنی آئینی بینچ تشکیل دیا تھا جس نے نو دسمبر کو اپیلوں پر سماعت شروع کی تھی۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران آئینی عدالت نے 13 دسمبر 2024 کو نو مئی کے واقعات میں ملوث 85 ملزمان کے مقدمات کے فیصلے سنانے کی اجازت دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمہ کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
عدالت کے اس فیصلے کے بعد فوجی عدالتوں نے پہلے مرحلے میں 21 دسمبر کو 20 ملزموں کو 10 سال تک قید کی سزا سنائی تھی جبکہ 26 دسمبر کو عمران خان کے بھانجے حسان خان نیازی سمیت 60 ملزموں کو 10 سال تک قید کی سزا دی گئی تھی۔

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے موقف احتیار کیا کہ ’آئین میں ایسی گنجائش موجود ہے جو سویلین کے کورٹ مارشل کی اجازت دیتی ہے۔‘
ان اپیلوں کی سماعت کے دوران سات رکنی بینچ کی جانب سے یہ آبزرویشن بھی دی گئی کہ بنیادی حقوق ملنے یا نہ ملنے کا معاملہ یا اپیل کا معاملہ ان کے سامنے ہے ہی نہیں۔
عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا معاملہ سپریم کورٹ میں نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی درخواستوں پر سامنے آیا تھا۔
جسٹس اعجاز الااحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اکتوبر 2023 میں ان درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 103 شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کے اقدام کو خلاف قانون و آئین قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے ٹرائل کی اجازت دینے والی آرمی ایکٹ میں موجود شق ٹو ون ڈی کی دونوں ذیلی شقوں کو ہی کالعدم قرار دے دیا تھا۔
تاہم اب عدالت کی جانب سے دس صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئین کے تناظر میں ٹو ڈی ون اور ٹو کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا، آئین آرٹیکل 233 کے تحت بنیادی حقوق کی معطلی کا کوئی سوال نہیں، اٹارنی جنرل کے مطابق نو مئی کو ہونے والے حملے تاریخی میں سیاہ ترین حملے ہیں، نو مئی کے نتیجہ میں مختلف مقدمات کا اندراج کیا گیا، نو مئی پر مختلف افسران کے خلاف بھی سخت کارروائی کی گئی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تمام بنیادی آئینی حقوق پر کچھ قانونی پابندیاں ہیں، پرامن احتجاج پر کوئی پابندی نہیں۔ فریقین کے وکلا نے نو مئی واقعات سے انکار نہیں کیا، فریقین وکلا کی جانب سے مقدمات کو انسداد دہشتگردی عدالت میں چلانے کا موقف اپنایا گیا کوئی شک نہیں کہ شرپسند، قانون توڑنے والوں کو جرم ثابت ہونے پر سزا ملنی چاہیے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ علیحدہ فورم پر اپیل کا حق ملنا فری ٹرائل کا بنیادی حصہ ہے۔ اٹارنی جنرل کے مطابق 10 اے کے تحت فری ٹرائل تمام ملزمان کو حاصل تھا، فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کا حق دیا جائے۔ پاکستان آرمی ایکٹ میں 45 دن کے اندر ترمیم کی جائے سپریم کورٹ نے حکومت اور پارلیمنٹ کو معاملہ بھیجا ہے۔ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کو آزادانہ اپیل کا حق دیا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے نو اور دس مئی کے واقعات میں ملوث تمام 103 گرفتار افراد کی فہرست یا اس کے علاوہ بھی اگر کوئی عام شہری ان واقعات میں کسی بھی طرح ملوث ہیں تو ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔
عدالت نے قرار دیا تھا کہ ایسے تمام افراد کے خلاف مقدمات عام فوجداری عدالتوں کے سامنے چلائے جائیں گے۔
فیصلے کے مطابق ملک کے قانون کے تحت یہ عدالتیں خصوصی طور پر بھی قائم کی جا سکتی ہیں یا پہلے سے قائم عام عدالتیں بھی ان مقدمات پر سماعت کر سکتی ہیں۔
عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ ملزمان کے مقدمات ان کے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے عدالتوں میں چلائے جائیں۔ عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق 59 (4) کو بھی غیر آئینی قرار دیا تھا۔
بعدازاں سپریم کورٹ کے چھ رکنی بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ ایک کے مقابلے میں پانچ کی اکثریت سے معطل کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کو وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کے علاوہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے انٹراکورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔
تاہم 2024 کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آ گئی اور اس نے اپنی اپیل واپس لے لی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے نو مئی 2023 کے واقعات سے متعلق مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان واقعات میں مظاہرین کی جانب سے فوجی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواست دائر کرنے والوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ بھی شامل ہیں۔
20 جون 2023 کو سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی جانب سے عام شہریوں کے ملٹری عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عام عدالتوں کے ہوتے ہوئے فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے۔ اپنی درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنھیں کالعدم قرار دیا جائے۔
سابق چیف جسٹس کی جانب سے دائر کی گئی اس درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ان کا مقصد کسی جماعت یا ادارے کی حمایت یا حملے کو سپورٹ کرنا نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا اس مقدمے سے کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔
اس کے علاوہ مارچ 2024 میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی جلد سماعت کی درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
SOURCE : BBC