SOURCE :- BBC NEWS

- مصنف, ڈیوڈ کین
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس، سیول
-
3 گھنٹے قبل
جنوبی کوریا کے شہر سیئول کے مضافات میں آدھی رات ہو چکی ہے اور میرا جی چاہ رہا ہے کہ کچھ ہلکا پھلکا کھایا جائے لیکن یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں کیونکہ میرے اپارٹمنٹ کے بالمقابل سڑک کے اس پار ایک نہیں بلکہ متعدد دکانیں ہیں جو 24 گھنٹے کھلی رہتی ہیں۔
میں جس دکان میں داخل ہوا ہوں وہ آئس کریم کی دکان ہے۔ مختلف قسم کی آئس کریمز کے ساتھ فریزر کی قطاریں ہیں لیکن وہاں کوئی سکیورٹی گارڈ یا دکاندار نہیں۔
مجھے بس اتنا کرنا ہے کہ میں جو چاہتا ہوں وہ لے لوں اور جانے سے پہلے ادائیگی کروں۔
آئس کریم سٹور کے اسی بلاک میں ایسی دکانیں ہیں جو سٹیشنری، پالتو جانوروں کا کھانا اور یہاں تک کہ سوشی بھی فروخت کرتی ہیں۔ سبھی میں کوئی دکاندار یا عملے کا ایک بھی رکن نظر نہیں آتا۔
اندرون شہر کے زیادہ رش والے علاقوں میں بغیر عملے کے شراب خانے بھی ہوتے ہیں۔
ایسے ہی ایک بار سول 24 کے بانی اور خالق کم سنگ رے کا کہنا ہے کہ ’اس پیمانے پر اور اس قدر منافع والے بار کو چلانے کے لیے مجھے 12 سے 15 افراد کے عملے کی ضرورت ہو گی لیکن میں صرف دو افراد کا استعمال کرتا ہوں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس سے انھیں دوسرے کاروباری منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنے کا وقت ملتا ہے۔
وہ قریب ہی ایک بار چلاتے تھے لیکن جب آمدن توقعات پر پورا نہیں اترتی تھی تو انھوں نے بغیر دکاندار کے نظام کا رخ کیا اور اب منافع میں اضافہ ہوا۔
کم شرح پیدائش

،تصویر کا ذریعہGetty Images
جنوبی کوریا دنیا میں سب سے کم شرح پیدائش والا ملک ہے۔ ایک خاتون کی زندگی میں پیدا ہونے والے بچوں کی اوسط تعداد 2023 میں کم ہو کر 0.72 رہ گئی تھی تاہم یہ گذشتہ برس بڑھ کر 0.75 ہو گئی۔
ایک مستحکم آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے جنوبی کوریا میں شرح پیدائش کو کم از کم 2.1 پر لانے کی ضرورت ہے اور ایسا آخری بار سنہ 1982 میں ہوا تھا۔
اس کا مطلب ہے کہ لیبر مارکیٹ میں آنے والے افراد کی تعداد کم ہو رہی ہے جبکہ سال 2000 کے بعد سے کم از کم اجرت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
کِم جیسے کاروباری مالکان کو اب عملے کے لیے تقریبا سات ڈالر فی گھنٹہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’بغیر دکاندار کاروبار چلانے کی سب سے بڑی وجہ کم از کم اجرت میں اضافہ تھا۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں، روبوٹکس یا آٹومیشن۔‘
چونکہ روبوٹس کو تعینات کرنے کے لیے زیادہ پیسے اور جگہ کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا انھوں نے بغیر عملے کے سٹوروں کا انتخاب کیا۔
کووڈ وبا نے آٹومیشن کی طرف جھکاؤ بڑھایا۔ اس سے اجرتوں پر آنے والی لاگت کی بچت ہوئی۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مزدوروں کی نئی نسل نام نہاد ’تھری ڈی نوکریاں‘ نہیں کرنا چاہتی، جنھیں گندا، خطرناک، اور مشکل یا توہین آمیز سمجھا جاتا ہے۔
ان سے مراد مینوفیکچرنگ اور زراعت جیسی ملازمتوں میں ہاتھ سے کی جانے والی مزدوری ہے جسے ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔
جنوبی کوریا میں حکمراں جماعت پیپلز پاور کے رکن اور ایجوکیشن سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن چو جنگ ہن کہتے ہیں ’نوجوان نسل میٹروپولیٹن علاقوں کے اندر رہنے کی کوشش کرتی ہے اور وہ اپنے کاروبار، وینچر کیپیٹل بنانا بھی پسند کرتے ہیں اور اچھی تنخواہ والی ہائی ٹیک ملازمتوں کی تلاش کر رہے ہیں۔‘
چو جنگ ہن کہتے ہیں ’کچھ دوسرے پالیسی سازوں کے برعکس، میں اپنی نوجوان نسل کو اس طرح کی ترجیحات کا مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں آنے والے برسوں میں کم لیبر فورس سے نمٹنا پڑے گا اور یہ بہتر ہے کہ ہم اپنی محدود لیبر فورس کو زیادہ سے زیادہ قیمت والے شعبوں میں مختص کریں۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
نجی مالی اعانت سے چلنے والے تھنک ٹینک کوریا اکنامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کو توقع ہے کہ کوریا میں 43 فیصد ملازمتوں کو اگلے 20 سال میں آٹومیشن سے تبدیل کرنے کا خطرہ ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ’براؤنی‘ کے چیف ایگزیکٹو کوون من جے جیسے لوگوں کے لیے نئے مواقع بھی ہیں ، ایک ایسی کمپنی جو بغیر دکاندار کے سٹورز کا انتظام کرتی ہے۔
انھوں نے 2022 میں کووڈ بحران کے اختتام پر اپنا کاروبار شروع کیا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم بغیر کسی شخص کے کپڑے دھونے، آئس کریم سٹورز، کیفے اور ویپ شاپس کا انتظام کرتے ہیں۔‘
اگر دکان بغیر دکاندار کے بھی ہو، تب بھی اسے صاف کرنے اور اس کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابتدائی طور پر دکان کے مالکان نے یہ کام کیا۔
کوون کی کمپنی اب ایسے کارکن فراہم کر رہی ہے جو دکانوں کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں۔
’ہمارے پاس مقامی عملے کا ایک گروہ ہے جو ایک دن میں ان میں سے کئی سٹوروں کا دورہ کر سکتے ہیں۔ مالکان کے لیے سب سے بڑی ترجیح یہ ہے کہ وہ دکانوں کے کام نہ کریں اور ان کے بارے میں نہ سوچیں۔ اس کے بجائے وہ ہمیں ان کی دکانوں کا انتظام کرنے کے لیے ماہانہ 100 یا 200 ڈالر اضافی ادا کریں گے۔‘
کوون کا کہنا ہے کہ انھوں نے صرف دو سٹورز کے ساتھ شروعات کی تھی لیکن اب وہ 100 سے زیادہ کا انتظام کرتے ہیں۔
کچھ چوریاں بھی ہوئیں
جنوبی کوریا میں چوری کی شرح بہت کم ہے جو عملے کے بغیر سٹورز کی کامیابی میں اضافہ کرتی ہے۔
کوون کہتے ہیں کہ ’یہاں تک کہ ایسے معاملے بھی سامنے آئے ہیں جب لوگ ادائیگی کرنا بھول گئے لیکن بعد میں مجھے اپنا بل ادا کرنے کے لیے بلایا۔ میں دوسری دکانوں کے بارے میں نہیں جانتا لیکن یہاں کے نوجوان اتنا محفوظ محسوس کرتے ہیں کہ اپنے لیے میز پر جگہ رکھنے کے لیے اپنا پرس اور فون چھوڑ دیتے ہیں۔‘
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ دکان میں چوری کی وجہ سے کچھ نقصان ہو سکتا ہے لیکن وہ اتنا بڑا نہیں کہ ان کے کاروبار کو مفلوج کر سکیں۔
’میں چوری ہونے والی چیزوں کا کبھی حساب نہیں کرتا چونکہ مجموعی طور پر مالی نقصان نہیں ہوتا لہذا یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ بچت کی لاگت ویسے بھی نقصان سے زیادہ ہے اور سکیورٹی خدمات حاصل کرنے پر اس سے کہیں زیادہ لاگت آئے گی۔‘
ٹیکنالوجی میں ترقی کا مطلب یہ ہے کہ جب سیلف ڈرائیونگ کاریں مارکیٹ میں بھر جائیں گی تو ڈرائیونگ جیسی مزید ملازمتیں بے کار ہو جائیں گی۔
ایک اندازے کے مطابق 2032 تک جنوبی کوریا کو 890,000 سے زائد اضافی کارکنوں کی ضرورت ہوگی تاکہ ملک کی طویل مدتی اقتصادی ترقی کے دو فیصد ہدف کو برقرار رکھا جا سکے۔
SOURCE : BBC