SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, اشادریتا لاہری
- عہدہ, بی بی سی ہندی
-
2 گھنٹے قبل
انڈیا کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر کے پہلگام میں حملے کے بعد انڈیا کی مرکزی حکومت کی کشمیر پالیسی پر سوالات اٹھ رہے ہیں کیونکہ جموں و کشمیر میں حالات کو معمول پر لانا وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا ایک بڑا وعدہ تھا۔
سنہ 2019 میں حکومت نے کشمیر کو آئین کی جانب سے خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کو ہٹا دیا۔ اس وقت وزیر اعظم مودی نے آرٹیکل 370 کی مذمت کی تھی۔
انھوں نے کہا تھا کہ ‘آرٹیکل 370 ایک ایا ٹول ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے کشمیر میں دہشت گردی، تشدد اور بدعنوانی پھیلائی جا رہی تھی۔’
اس کے بعد سے لے کر پہلگام حملے تک مودی حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اس کے دس سالہ اقتدار کے دوران جموں و کشمیر میں امن اور عدم تشدد کا ایک نیا دور آیا ہے۔
منگل کے حملے کو جموں و کشمیر میں حالیہ دنوں میں سب سے مہلک عسکریت پسند حملہ کہا جا رہا ہے۔
اس حملے کے بعد کئی طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا سوال حکومت کی کشمیر پالیسی کے متعلق ہے۔ یعنی حکومت کی پالیسی کتنی کامیاب رہی؟
کشمیر کے متعلق کیے گئے دعووں کی حقیقت کیا ہے؟ اس واقعے کے بعد اس پالیسی کا کیا بنے گا؟
ان تمام سوالوں کے جواب جاننے کے لیے بی بی سی ہندی نے کچھ ماہرین سے بات کی۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کشمیر پالیسی اور مودی حکومت کے دعوے
جموں و کشمیر میں حالات کو معمول پر لانا 2014 سے ہی بی جے پی کی مودی حکومت کا ایک بڑا وعدہ تھا۔ دوسری بار اقتدار میں آنے کے بعد مودی حکومت نے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس سے وہاں کے حالات معمول پر آ جائیں گے۔
حکومت نے اعلان کیا کہ اب انڈیا کی دیگر ریاستوں کے لوگ بھی جموں و کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور گھر بنا سکتے ہیں۔
سیاحت اور سکیورٹی اس پالیسی کا بڑا حصہ تھے۔ حکومت نے کئی بار دعویٰ کیا کہ آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کے بعد جموں و کشمیر میں سیاحوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار بھی اس کی عکاسی کرتے ہیں۔
سنہ 2024 میں 34 لاکھ سے زیادہ سیاحوں نے کشمیر کا دورہ کیا۔ یہ وادی کشمیر کے لیے ایک نیا ریکارڈ تھا۔ اس کے ساتھ ہی سرحدی سیاحت بھی شروع کر دی گئی۔
اس کے علاوہ کشمیر میں حکومت کی طرف سے کئی بنیادی ڈھانچے بھی تعمیر کیے گئے۔ کئی سرنگیں بنائی گئیں جس نے جموں و کشمیر کے دور دراز علاقوں کو جوڑنے کا کام کیا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
رواں سال وزیر اعظم مودی نے سونمرگ ٹنل کا افتتاح کیا۔ یہ سرنگ سونمرگ اور گگنگیر کو جوڑتی ہے۔ اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے تقریباً 2700 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے کئی ادارے کھولے گئے۔ یہاں تک کہ سِدھرا میں ایک گولف کورس بھی بنایا گیا۔
حکومت کی جانب سے دسویں اور بارہویں جماعت کے طلباء کو ٹیبلٹ دیے گئے۔
مجموعی طور پر حکومت کی طرف سے یہ ظاہر کیا گیا کہ کشمیر میں خوف کا دور ختم ہو چکا ہے۔ حالات معمول پر آچکے ہیں۔ انتہا پسند عناصر پر قابو پالیا گیا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے سنہ 2019 میں آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کے پانچ سال بعد گذشتہ سال پہلی بار جموں و کشمیر کا دورہ کیا۔
ان کا یہ دورہ لوک سبھا انتخابات سے چند دن پہلے ہوا۔ سری نگر میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کشمیری اب ‘آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔’
انھوں نے کہا: ‘آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کے بعد کشمیر ترقی اور خوشحالی کی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ مقامی لوگ آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔ یہ آزادی آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کے بعد ملی ہے۔ کئی دہائیوں سے کانگریس اور اس کے اتحادیوں نے جموں و کشمیر اور ملک کے لوگوں کو دفعہ 370 کے بارے میں گمراہ کیا۔’
تاہم اس دوران مشکلات بھی پیدا ہوئیں۔ سنہ 2017 میں امرناتھ یاتریوں پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ اس میں آٹھ لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔
سنہ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی سے پہلے وادی کے پلوامہ میں ایک دہشت گردانہ حملے میں سی آر پی ایف کے 40 اہلکار مارے گئے تھے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
’مودی حکومت زیادہ کامیاب نہیں رہی‘

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
بی بی سی نے انسٹی ٹیوٹ آف کنفلیکٹ مینجمنٹ کے انسداد دہشت گردی کے ماہر ڈاکٹر اجے ساہنی سے بات کی۔
انھوں نے کہا: ’جہاں تک انسداد دہشت گردی کا تعلق ہے، اس حکومت نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو پہلے نہیں ہو رہا تھا۔ جو پالیسی پہلے تھی اب بھی وہی ہے۔ اس سے انتہا پسندی پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔‘
‘پہلے لوگ کہتے تھے کہ ترقی لے کر آئے ہیں، اب کہہ رہے ہیں کہ سرمایہ کاری لے کر آئے ہیں۔ مجھے نظر نہیں آرہا، شاید دو چار سڑکیں بنی ہوں۔ وہ پہلے بھی بنوائی گئی تھیں۔ انھوں نے افتتاح ضرور کیا ہے لیکن سرنگ ان کے دور میں نہیں بنائی گئی ہے۔’
ڈاکٹر ساہنی نے کہا کہ ‘انسداد دہشت گردی’ محض سکیورٹی فورسز کی کامیابی ہے۔ ’حکومت کا کام پالیسی بنانا اور بات چیت بڑھانا ہے۔‘
ساہنی کے مطابق مودی حکومت اس کام میں زیادہ کامیاب نہیں رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’دہشت گردی کا مقابلہ صرف سکیورٹی فورسز کی کامیابی ہے۔ اس میں پہلے بھی ناکامیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس سے سیکھیں، اور بدلیں۔ اسی طرح صلاحیت اور اہلیت میں اضافہ ہوا۔‘
’سکیورٹی فورسز کا کام سیاسی مسائل کو حل کرنا نہیں ہے۔ وہ آپ کو کسی علاقے یا اس کے لوگوں پر ایک حد تک کنٹرول دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد سیاسی پہل کی ضرورت ہے۔ وہ کہیں نہیں ہے۔‘
مسٹر ساہنی نے کہا کہ ‘جو سیاسی پہل ہوئی وہ تفرقہ انگیز اور پولرائزنگ ہے۔ ہر صبح آپ کچھ نہ کچھ ایسا کہتے یا کرتے ہیں جو مسلم آبادی کو الگ کر دیتا ہے اور ہندو آبادی کو بھڑکاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ان چیزوں کو آہستہ آہستہ ختم کرتے ہوئے پورے جموں و کشمیر کو انڈین شناخت کے اندر واپس لایا جانا چاہیے۔ ان کی ایک جامع شناخت ہونی چاہیے، نہ کہ منقسم شناخت۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی انتہا پسندی کی بات ہو رہی ہے۔ یہ دونوں انتہا پسندانہ نظریات ایک دوسرے کی وجہ سے پروان چڑھتے اور بڑھتے ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا مودی حکومت کی شبیہ خراب ہوئی ہے؟
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا خیال ہے کہ اس واقعے سے حکومت کی شبیہہ اور اس کی کشمیر پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
بی جے پی کے ترجمان آر پی سنگھ نے بی بی سی کو بتایا: ‘اس سے حکومت کی شبیہ کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ مسئلہ وہیں گراؤنڈ پر رہے گا۔ کشمیر پر لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو گیا ہے۔ خاص طور پر سیاحوں کا اعتماد۔‘
‘کشمیر سیاحت کے لیے جانا جاتا ہے۔ سیاحت کے شعبے میں لوگوں کا اعتماد پیدا کرنے میں کافی وقت لگا۔ سکیورٹی ایک بار پھر ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ لیکن اس سے حکومت کی کشمیر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ کشمیر کو انڈیا کے مرکزی دھارے میں لانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔’
انھوں نے مزید کہا: ‘آج کشمیر کے نوجوان پاکستان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، مسلم نوجوان بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ اب حکومت کا پہلا کام کشمیر کے لوگوں میں اعتماد واپس لانا ہے۔ اس سے انڈین سیاح متاثر ہوں گے۔ ریاست کی معیشت بھی کمزور ہوگی۔’

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا مودی سرکار کی کشمیر پالیسی ناکام ہو گئی؟
دوسری جانب کشمیری ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کے وعدے کبھی سچے نہیں تھے۔ یہ اصل معاملے کو چھپانے کے لیے صرف ایک پردہ تھا۔
سیاسی ماہر اور کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسر نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی کشمیر پالیسی کو نافذ کرنے میں ناکام رہی ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’جب آرٹیکل 370 ہٹایا گیا تو کہا گیا کہ کشمیر میں انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا رہا ہے۔ اس کے بعد کشمیر کی سکیورٹی کا سارا کنٹرول دہلی کے ہاتھ میں آ گیا تھا۔‘
’اس کے بعد حالات بہتر ہو رہے تھے اور سیاحت میں بہتری آ رہی تھی۔ تاہم اس کے باوجود جموں و کشمیر کے کچھ علاقوں میں تشدد کے واقعات رونما ہو رہے تھے۔ لیکن کہا گیا کہ کشمیر میں حالات معمول پر آ گئے ہیں۔ لوگوں کا اعتماد واپس آ گیا ہے۔‘
نور احمد کا کہنا ہے کہ منگل کا حملہ اس کی نفی کرتا ہے۔
ان کے مطابق: ’یہ سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی ہے۔ یہ بھی حد سے زیادہ اعتماد کا نتیجہ ہے۔ اب مرکزی حکومت کے لیے یہ کہنا مشکل ہو گا کہ کشمیر میں حالات ٹھیک ہیں۔ یہ واقعہ ایک طرح سے حکومت کی کشمیر پالیسی کی ناکامی ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا حالات بدل چکے ہیں؟
بی بی سی نے منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز اینڈ اینالائزز (ایم پی-آئی ڈی ایس اے) کے عادل رشید سے بھی بات کی۔
عادل رشید کا کہنا ہے کہ ’جب سے 2019 میں آرٹیکل 370 ہٹایا گیا ہے کشمیر میں سکیورٹی کی صورتحال میں مسلسل بہتری آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترقی بھی بہت اچھی ہوئی ہے۔ شروع میں غیر یقینی کی صورتحال تھی، جو اب ختم ہو رہی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں: ’اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس واقعے کے خلاف کل رات ایک ریلی اور کینڈل مارچ نکالا گیا۔ اس کے بعد اماموں نے مساجد سے اس حملے کی مذمت کی۔ کشمیر کی تمام برادریوں نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ یہ حکومت اور سکیورٹی فورسز کے لیے ایک بہت حوصلہ افزا اشارہ ہے۔‘
مسٹر رشید نے کہا: ’مجھے نہیں لگتا کہ کشمیر کی ترقی کے لیے کسی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے گی، البتہ ایک موثر سکیورٹی پالیسی ضرور آئے گی۔‘
عادل رشید کہتے ہیں: ’حکومت کے بڑے سے بڑے ناقد بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ کشمیر میں ترقی ہوئی ہے۔ کشمیر کے عام شہری کو بہت فائدہ ہوا ہے۔‘
’جن کے دلوں میں سیاسی خیالات ہیں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ لیکن زمینی سطح پر بہت بہتری آئی ہے۔ ملک کے شہریوں کو یقین ہے کہ حالات میں بہتری آئی ہے۔‘
انھوں یہ بھی کہا کہ ’اگر ایسا (پہلگام جیسا) کوئی واقعہ ہو بھی جاتا ہے تو شہری اسے ٹرینڈ نہیں سمجھیں گے۔ یہ یقینی طور پر بہت بڑا حملہ تھا۔ سفارتی اور عسکری سطح پر ٹھوس کارروائی کی جائے گی۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہاں کے لوگوں کا حکومت پر جو اعتماد پیدا ہوا ہے، وہ کمزور ہو گا۔‘
(بی بی سی کے نامہ نگار جُگل پروہت کے ان پٹ کے ساتھ)
SOURCE : BBC