Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں ’مسٹر ٹو لیٹ‘: ٹرمپ کی مرکزی بینک کے چیئرمین پر تنقید کے...

’مسٹر ٹو لیٹ‘: ٹرمپ کی مرکزی بینک کے چیئرمین پر تنقید کے بعد امریکی سٹاک مارکیٹ اور ڈالر کی قدر میں کمی

3
0

SOURCE :- BBC NEWS

PAF

،تصویر کا ذریعہPAF

پاکستان ایئرفورس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ سابق ایئر مارشل
جواد سعید کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے علاوہ بغاوت کے ایک مقدمے میں بھی ٹرائل
ہوا ہے اور اِن دونوں مقدمات میں سابق افسر کو سزا سنائی گئی ہے۔

یاد رہے کہ 28 مارچ 2025 کو اسی کیس سے متعلق ہونے والی سماعت کے دوران
پاکستان ایئرفورس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ سابق ایئرمارشل جواد
سعید کا حساس دستاویزات شیئر کرنے پر کورٹ مارشل کیا گیا ہے اور انھیں 14 سال قید
کی سزا سنائی گئی ہے۔ فضائیہ کی جانب سے عدالت میں یہ بیان سابق ایئرمارشل کی
اہلیہ کی جانب سے اپنے شوہر کو حبس بےجا میں رکھنے سے متعلق درخواست پر سماعت کے
دوران آیا تھا۔

ایئرفورس کے نمائندے کی جانب سے جب یہ بتایا گیا کہ ریٹائرڈ افسر کا کورٹ
مارشل کیا جا چکا ہے تو عدالت نے اہلیہ کی درخواست خارج کر دی تھی جس کے خلاف
انھوں نے اسی عدالت میں نظرثانی کی اپیل دائر کر دی تھی۔

پیر کے روز اسلام آباد
ہائی کورٹ کے جسٹس خادم حسین سومرو نے اہلیہ کی نظرثانی کی اپیل پر سماعت کی جس کے دوران پاکستان
فضائیہ کے نمائندے نے عدالت میں کوئی تحریری دستاویزات پیش نہیں کیں۔

اس اپیل کی سماعت کے دوران ایئرفورس حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ
ایئر مارشل ریٹائرڈ جواد سعید کا کورٹ مارشل کرنے کے بعد انھیں ایک سب جیل میں
رکھا گیا ہے۔ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس ضمن میں ایک فوجی میس کو ہی سب جیل
قرار دیا گیا ہے۔

جواد سعید کی اہلیہ کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے عدالت میں دلائل
دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فضائیہ کے سربراہ کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ
جس کی بنیاد پر وہ کسی بھی عمارت کو سب جیل قرار دے کر کسی ملزم یا مجرم کو وہاں
قید کر سکیں۔

انھوں نے کہا کہ دراضل یہ اختیار وفاقی حکومت کو حاصل ہے کہ وہ کسی بھی عمارت
کو سب جیل قرار دے۔

کرنل انعام کا مزید کہنا تھا کہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ ایف بی علی سے لے کر آج تک
جتنے بھی فوجی اہلکاروں کا کورٹ مارشل ہوا ہے انھیں سزا دینے کے بعد سویلین
اتھارٹی (جیل حکام) کی تحویل میں دے دیا جاتا ہے اور ایسے مجرمان کو عام جیلوں میں
رکھا جاتا ہے جہاں ان کے وہی حقوق ہوتے ہیں جو دیگر عام پاکستانی قیدیوں کے ہوتے
ہیں، یعنی انھیں جیل مینوئل کے مطابق اپنے اہلخانہ اور وکلا سے ملاقات کی اجازت
ہوتی ہے۔

اس موقع پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کو اڈیالہ جیل سے
بنی گالہ منتقل کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا
کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے محض اس بنیاد پر بشری بی بی کو واپس اڈیالہ جیل بھیج
دیا تھا چونکہ انھیں بنی گالہ منتقل کرنے سے پہلے اُن کی رضامندی نہیں لی گئی تھی۔

انھوں نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ ایئرفورس کے نمائندے کو حکم دیں کہ وہ اُس
نوٹیفیکیشن کو عدالت میں پیش کریں جس میں فوجی میس کو سب جیل قرار دینے کا کہا گیا
ہے۔ انھوں نے یہ بھی استدعا کی کہ اس کے ساتھ ساتھ جواد سعید کے خلاف چارج شیٹ اور
ان کے حوالے سے دیے گئے فیصلے کی کاپی بھی فراہم کی جائے۔

جواد سعید کی اہلیہ کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ جب کسی ملزم کو سزا سُنا کر
مجرم قرار دے دیا جاتا ہے تو پھر اس فیصلے کی کاپی عدالت میں اور متاثرہ فریق کو
دینا قانونی طور پر ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ سیکرٹ ایکٹ کا قانون تبدیل ہو گیا ہے اور اب وفاقی حکومت ایسے
معاملات کی سماعت کے لیے ایک جج مقرر کرتی ہے جو کہ ایسے مقدمات کی سماعت کرتے
ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف درج سائفر مقدمے کی سماعت
بھی سول عدالت میں ہوئی تھی جبکہ فی الوقت ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل کا ٹرائل بھی
سول کورٹ میں ہو رہا ہے۔

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اپنی اپیل کے حق میں مزید دلائل دیتے ہوئے کہا
کہ ملٹری ایکٹ میں ہے کہ جس کسی کا ٹرائل ہو گا تو اس کی فیملی کو اس بارے
میں اگاہ کیا جائے گا، لیکن ان کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا کہ جب ایئرفورس کے حکام یہ مان چکے ہیں کہ ایئر مارشل ریٹائرڈ
جواد سعید سزا یافتہ ہیں تو پھر وہ انھیں کیسے اپنی تحویل میں رکھ سکتے ہیں۔ انھوں
نے کہا کہ اُن کا موکل گذشتہ ایک سال سے غیر قانونی تحویل میں ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت یہ بھی استدعا کی وہ اس اپیل میں بنائے
گئے فریقین بشمول پاکستان ایئرفورس کو حکم دیں کہ وہ ایئر مارشل ریٹائرڈ جواد سعید
کے مقدمے کا تمام ریکارڈ عدالت میں پیش کرے۔

عدالت نے اپیل کندہ کی اس استدعا کو منظور کرتے ہوئے ضروری دستاویزات آئندہ
سماعت پر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

واضح رہے کہ ایئر مارشل ریٹائرڈ جواد سعید 18 مارچ 2021 کو پاکستان ایئرفورس
سے ریٹائر ہو گئے تھے۔ جواد سعید کی اہلیہ کے مطابق ان کے شوہر کو یکم جنوری 2024
کو اُن کے گھر سے مبینہ طور پر اغوا کر لیا گیا تھا۔

بعدازاں اُن کا کورٹ مارشل ہوا اور انھیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تاہم اس
سزا کے خلاف اپیل پر ان کی سزا 14 سال سے کم کرکے چار سال کر دی گئی۔

اس کیس میں ہونے
والی گذشتہ سماعت کے دوران اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ 27 جنوری
2024 کو جواد سعید کا کورٹ مارشل ہوا، جس کے خلاف دائر اپیل پر فیصلہ بھی 11 مارچ
2024 کو ہو چکا ہے اور فی الحال جواد سعید کی سزا کے خلاف رحم کی اپیل ایئر چیف
مارشل کے پاس زیر التوا ہے۔

ریٹائرڈ ایئر
مارشل جواد سعید کون ہیں اور ان کا خاندان کیا چاہتا ہے؟

جولائی 2018 میں
وائس ایئر مارشل جواد سعید کو ایئر مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی اور وہ مارچ
2021 کے دوران اس عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔

تھری سٹار ایئر
مارشل کے عہدے کو لیفٹیننٹ جرنل کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔

انھوں نے نومبر
1986 میں پاکستان ایئر فورس کی جی ڈی پی برانچ میں کمیشن حاصل کیا تپا۔ سرکاری خبر
رساں ادارے اے پی پی کے مطابق اپنے کیریئر کے دوران انھوں نے فائٹر سکواڈرن، فائٹر
ونگ، آپریشنل ایئر بیس اور ریجنل ایئر کمانڈ کی کمان کی۔

مقامی ذرائع
ابلاغ کی خبروں کے مطابق ریٹائرمنٹ سے قبل ان کا نام مارچ 2021 کو فضائیہ کے سب سے
سینیئر افسران کی اس سمری میں شامل تھا جو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو ایئر
چیف کی تعیناتی کے لیے بھیجی گئی تھی۔

وہ ایئر ہیڈ
کوارٹرز اسلام آباد میں اسسٹنٹ چیف آف ایئر سٹاف (آپریشنز) اور ڈپٹی چیف آف ایئر
سٹاف (آپریشنز) بھی تعینات رہے ہیں۔

وہ کمبیٹ کمانڈر
سکول، ایئر وار کالج اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔

ریٹائرڈ ایئر
مارشل جواد سعید کو ماضی میں سرکاری اعزازات ستارۂ امتیاز اور تمغۂ امتیاز سے بھی
نوازا گیا تھا۔

تاہم ان کے حوالے
سے حالیہ عرصے میں ان کی اہلیہ نے عدالت میں درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ ان
کے شوہر کے خلاف کوئی بھی کیس درج نہیں ہے اور ان کی حراست ‘غیر قانونی’ ہے۔

اس درخواست میں
کہا گیا ہے کہ ‘جبری تحویل بنیادی آئینی حقوق کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے
انٹرنیشل چارٹر برائے انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے۔’

اسلام آباد ہائی
کورٹ میں دائر کی جانے والی اس درخواست میں کہا گیا کہ جواد سعید کو ‘عدالت میں
پیش کیا جائے اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو قانون کے مطابق عدالتی کارروائی کی
ہدایت کی جائے۔’

اس درخواست میں
یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواد سعید نے سروس کے دوران اہم آپریشنل اور سٹاف اسئنمنٹس
کیں مگر اب اہلخانہ کو بتایا گیا کہ وہ پاکستان ایئر فورس کی تحویل میں ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے
کہ ان کی اپنے شوہر سے ملاقات کروائی گئی تھی اور یقین دہائی کروائی گئی تھی کہ
انھیں جلد رہا کر دیا جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔

ان کا کہنا ہے کہ
ان کے شوہر کی پنشن بھی بند کر دی گئی ہے۔

SOURCE : BBC