Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں شی جن پنگ اور پوتن کی مسکراہٹ اور قربت کے پیچھے چھپی...

شی جن پنگ اور پوتن کی مسکراہٹ اور قربت کے پیچھے چھپی حقیقت

2
0

SOURCE :- BBC NEWS

روس

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, لارا بکر
  • عہدہ, نامہ نگار چین
  • 5 گھنٹے قبل

چینی صدر شی جن پنگ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ ایک دوسرے کے سب سے اچھے دوست ہیں۔

ماسکو میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی تقریبات کے دوران جب دونوں ممالک کی افواج اکٹھے پریڈ کر رہی تھیں تو شی جن پنگ کو پوتن کی دائیں جانب ان کے ساتھ ایک مضبوط اتحادی کی طرح کھڑے دیکھا گیا۔

چند گھنٹے قبل شی جن پنگ نے دونوں ممالک کے تعلقات کو ’ناقابل تسخیر‘ قرار دیا اور کہا کہ روس اور چین ’آہنی دوست‘ ہیں۔

2013 میں صدر بننے کے بعد سے یہ صدر شی جن پنگ کا روس کا 11واں دورہ تھا۔ اس کے علاوہ مختلف مواقع پر دونوں سربراہان ملکت 40 سے زیادہ بار مل چکے ہیں۔

صدر پوتن پہلے ہی رواں سال کے آخر میں چین کا دورہ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ لیکن اس قریبی تعلق کے پیچھے اور بھی بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔

سینٹر فار یورپین پالیسی انالیسس کے میتھیو بولون کا کہنا ہے کہ ’ہم نے دونوں سربراہان مملکت کو بہت بار اکھٹے دیکھا ہے لیکن وہ ایک موقع پر دوست اور کسی اور موقع پر ایک دوسرے کے مخالف بھی ہو سکتے ہیں کیوں کہ ان کے تعلق میں مقابلہ بھی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم صرف علامتی چیزیں دیکھ کر متاثر ہو جاتے ہیں لیکن اصل تعلق کو دیکھنا دلچسپ ہے۔‘

شی

،تصویر کا ذریعہEPA-EFE/Shutterstock

حقیقت یہ ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ بہت احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ روس چین کا اہم اتحادی ضرور ہے لیکن یوکرین پر حملے کے بعد اس کی عالمی سطح پر ساکھ متاثر ہوئی۔

بیجنگ کے لیے یہ ضرروی ہے کہ اس کی ماسکو سے دوستی دیگر اتحادیوں کو تنہا نہ کر دے خصوصی طور پر ایسے وقت میں جب وہ خود امریکہ سے ایک تجارتی جنگ لڑ رہا ہے۔

چین کئی ماہ سے کوشش کر رہا ہے کہ یورپ سے تعلقات کو بہتر کرے۔ ان کوششوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بن جانے کے بعد سے اضافہ ہوا ہے۔

بیجنگ نے بظاہر خود کو ایک ایسی امریکی حکومت کے مقابلے میں مستحکم عالمی اتحادی ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے جس کے بارے میں کوئی اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ اب کیا کرنے والی ہے۔ اور رواں ہفتے کے آغاز میں ایسے آثار نظر آئے کہ چین کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہو رہی ہیں۔

یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان اور یورپین کونسل کے صدر انٹونیو کوسٹا نے منگل کے دن صدر شی جن پنگ اور چینی وزیر اعظم کے ساتھ باہمی تعلقات کے 50 سال مکمل ہونے پر پیغامات کا تبادلہ کیا۔

یورپ اور چین کے درمیان پارٹنرشپ میں بیجنگ کی ماسکو سے قربت اور روس کی معاشی امداد ایک رکاوٹ ہے۔ چین نے اب تک یوکرین پر حملے کے لیے اپنے پرانے دوست روس کی مذمت نہیں کی بلکہ ’بحران‘ کو ختم کرنے کی بات کی ہے۔

اگر صدر شی جن پنگ پوتن سے بہت زیادہ قریب کھڑے دکھائی دیے تو یورپ سے دوستی کی خواہش کھٹائی میں پڑ سکتی ہے۔

ٹرمپ کو پیغام

ٹرمپ نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یوکرین کی جنگ کو جلد ختم کرنے کی کوششیں کی تھیں اور انھوں نے پوتن سے ذاتی تعلقات کا حوالہ دیا تھا۔ اس کے بعد تجزیہ کاروں نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا امریکہ چین اور روس کے بیچ اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

صدر شی ٹرمپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ شی جن پنگ نے روسی میڈیا میں آنے والے ایک مضمون میں کہا کہ ’ہماری دوستی اور اعتماد کو متاثر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مل کر ناکام بنایا جائے گا۔‘

روسی اور چینی صدور نے ٹرمپ کی جانب سے ’گولڈن ڈوم‘ نامی میزائل ڈیفینس نظام کے منصوبے پر ردعمل میں کہا کہ یہ خلا کو ہتھیاروں سے بھرنے کے مترادف ہو گا۔ دونوں سربراہان ہی امریکی بالادستی کے مقابلے میں ایک متبادل عالمی نظام کا تصور پیش کر رہے ہیں۔

پوتن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لیکن شی جانتے ہیں کہ اگرچہ چین ایک عالمی طاقت ضرور ہے لیکن روس کی طاقت اور اثر و رسوخ محدود ہے۔ اس تعلق میں دونوں برابر نہیں۔

یوکرین کی جنگ نے روس کی معیشت کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی دفاعی صلاحیت کو بھی متاثر کیا ہے۔ مغربی پابندیوں نے ماسکو کا بیجنگ پر انحصار بڑھا دیا ہے اور عالمی سطح پر روس کو کمزور کیا ہے۔

بولون کا کہنا ہے کہ ’روس کو چین کی ضرورت زیادہ ہے۔‘

ماسکو کے ریڈ سکوئر میں ٹینکوں کو دیکھتے ہوئے پوتن ضرور اپنے دوست کا سہارا لے سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کی مدد بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن بیانات، مسکراہٹوں، مصافحوں کے پیچھے وہ بیج چھپے ہیں جو آنے والے سالوں میں دونوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دے سکتے ہیں۔

SOURCE : BBC