Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں سات ماہ کی حاملہ گوجرانوالہ کی ماریہ کو انڈیا چھوڑنے کا حکم:...

سات ماہ کی حاملہ گوجرانوالہ کی ماریہ کو انڈیا چھوڑنے کا حکم: ’بچے کے منتظر تھے لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے‘

3
0

SOURCE :- BBC NEWS

Gurpreet Singh Chawla/BBC

،تصویر کا ذریعہGurpreet Singh Chawla/BBC

  • مصنف, گرپریت سنگھ چاولہ
  • عہدہ, بی بی سی
  • 56 منٹ قبل

’میں کام پر تھا جب مجھے فون آیا۔۔۔ گھر گیا تو سب رو رہے تھے۔ پولیس اہلکار گھر پر آئے اور کہہ رہے تھے کہ ماریہ کو فوری طور پر اپنے ملک پاکستان واپس جانا پڑے گا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔‘

گورداسپور کے سونو یہ بتاتے ہوئے جذباتی نظر آئے۔

پہلگام میں ہونے والے حملہ ناصرف دونوں ممالک میں سیاسی اور معاشی سطح پر بلکہ سماجی اور خاندانی مسائل کا سبب بھی بن رہا ہے اور اس کے نتائج انڈیا میں شادی کرنے والی پاکستانی لڑکیاں بھی محسوس کر رہی ہیں۔

اسی طرح کا ایک کیس گورداسپور کے گاؤں ستھیالی میں سامنے آیا جہاں کے سونو مسیح نامی نوجوان نے تقریباً ایک سال قبل 8 جولائی 2024 کو پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں رہنے والی اپنے ہی مذہب کی لڑکی ماریہ سے شادی کی تھی۔

Gurpreet Singh Chawla/BBC

،تصویر کا ذریعہGurpreet Singh Chawla/BBC

نوجوان سونو مسیح کی بیوی ماریہ سات ماہ کی حاملہ ہیں۔ سونو کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے ماریہ کو فوراً انڈیا چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔

سونو کا کہنا ہے کہ ’ہم خاندانی اور ذہنی طور پر بہت الجھن میں پھنسے ہیں۔ میں پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ شادی شدہ لڑکیوں کو اس حکم سے مستثنیٰ رکھا جائے۔‘

سونو مسیح کا کہنا ہے کہ چھ سال کے طویل انتظار کے بعد ان کی شادی ہوئی اور اب وہ گھر میں نئے بچے کی خوشی کے منتظر تھے لیکن اب لگتا ہے سب کچھ بدل گیا ہے۔

دونوں کی ملاقات کیسے ہوئی؟

سونو ایک پینٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماریہ سے ان کا رابطہ تقریباً چھ سال قبل سوشل میڈیا کے ذریعے ہوئی تھی۔

ان کی دوستی دھیرے دھیرے محبت میں بدل گئی اور پھر وہ کرتار پور میں ملے۔

سونو کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد جب ہم نے ماریہ کو شادی کے لیے انڈیا بلانے کا فیصلہ کیا تو ابتدائی چند سالوں تک کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، آخر کار گذشتہ سال جولائی میں ماریہ کو ویزا مل گیا اور وہ انڈیا پہنچ گئیں۔‘

’اس وقت پاکستان اور انڈیا میں رہنے والے ہمارے دونوں خاندانوں کے درمیان خوشی کا ماحول تھا۔ ہم نے قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد 8 جولائی کو مذہبی رسومات کے ساتھ شادی کی۔‘

سونو اور ماریہ کی شادی کو تقریباً 10 ماہ ہونے کو ہیں اور ان کی اہلیہ بھی حاملہ ہیں۔

سونو کے مطابق پولیس افسران حال ہی میں ان کے گھر آئے اور ماریہ کو واپس پاکستان جانے کو کہا ہے کیونکہ ان کے پاس طویل مدتی ویزا (ایل ٹی وی) نہیں ہے۔

سونو کا کہنا ہے کہ انھوں نے شادی کے بعد گذشتہ جولائی میں ایل ٹی وی کے لیے درخواست دی تھی اور اتنے مہینوں کے بعد بھی ان کی ویزا فائل زیر غور ہے۔

ماریہ کی واپسی کی خبر سن کر پورا خاندان صدمے میں ہے۔ سونو کا کہنا ہے کہ وہ گھر کے واحد کمانے والے ہیں۔ ان کے والد بھی نہیں ہیں اور گھر میں صرف ایک ماں اور بہن ان کے ساتھ رہتی ہیں۔

’میں یہاں اپنے خاندان اور شوہر کے ساتھ خوش ہوں‘

Gurpreet Singh Chawla/BBC

،تصویر کا ذریعہGurpreet Singh Chawla/BBC

ماریہ کا تعلق پاکستان کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔

وہ کہتی ہیں ’پولیس والے مجھے واپس جانے کا کہہ رہے ہیں جو کہ میرے لیے بہت مشکل ہے۔۔۔ ہم سب بہت پریشان ہیں۔‘

ماریہ کے مطابق انھیں کہا گیا ہے کہ ’آپ کے پاس 24 گھنٹے ہیں، انڈیا چھوڑ کر اپنے ملک پاکستان واپس چلی جائیں۔‘

ماریہ کہتی ہیں ’میں نے پوری رات ہسپتال میں گزاری کیونکہ میں ذہنی تناؤ سے بیمار ہوگئی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’میں یہاں رہنا چاہتی ہوں، میں واپس نہیں جانا چاہتی۔ میں یہاں اپنے خاندان اور شوہر کے ساتھ خوش ہوں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ان کے خاندان کے افراد بھی پریشان ہیں۔

Gurpreet Singh Chawla/BBC

،تصویر کا ذریعہGurpreet Singh Chawla/BBC

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

دوسری جانب سونو کی ماں یمنا کا کہنا ہے کہ وہ ماریہ کو واپس نہیں بھیجنا چاہتیں۔ وہ بہت اچھی طرح سے ان کے خاندان کا حصہ بن گئی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’میں اپنی بہو اور بیٹے کے ساتھ رہتی ہوں۔ میرے شوہر بھی نہیں ہیں اور اگر سونو چلا گیا تو کون ہمارا ساتھ دے گا؟ ہم نہیں چاہتے کہ بہو ہمارا گھر چھوڑے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ماریہ خبر ملنے کے بعد بہت پریشان ہیں اور ان کے دل کی دھڑکن بھی بڑھ گئی تھی۔

وہ پوچھتی ہیں کہ ’لڑکیوں کا کیا قصور ہے؟ ہمارے پاس تمام کاغذات اور ثبوت موجود ہیں اور ویزے کے لیے درخواست بھی دی ہوئی ہے۔ ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ ماریہ کو ویزا دیا جائے اور انھیں ہمارے گھر ہی رہنے دیا جائے کیونکہ ہمارے گھر نئی ​​زندگی آنے والی ہے۔‘

ادھر گورداسپور ضلع کے ایس ایس پی آدتیہ نے بی بی سی سے اس معاملے پر فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈین حکومت کی طرف سے دی گئی چھوٹ ان لوگوں کے لیے ہے جن کے پاس ایل ٹی وی ویزا ہے، وہ رہ سکتے ہیں اور یہ وزارت کا فیصلہ ہے اس لیے وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔‘

تاہم ماریہ کے اہل خانہ عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹا رہے ہیں۔

SOURCE : BBC