Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں سابق فوجیوں کا چار دن میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا ریکارڈ:...

سابق فوجیوں کا چار دن میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا ریکارڈ: وہ ’معجزاتی‘ گیس جس نے بلند ترین چوٹی ریکارڈ وقت میں سر کرنا ممکن بنائی

2
0

SOURCE :- BBC NEWS

برطانیہ کی سپیشل فورسز کے چار سابق فوجی

،تصویر کا ذریعہSandro Gromen

  • مصنف, نوین سنگھ کھڑکا
  • عہدہ, نامہ نگار برائے ماحولیات، بی بی سی ورلڈ سروس
  • 2 گھنٹے قبل

برطانیہ کی سپیشل فورسز کے چار سابق فوجیوں نے ماؤنٹ ایورسٹ کو پانچ دن سے بھی کم عرصے میں سر کر کے ایک ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔

چھ شرپاؤں کی مدد سے ٹیم نے بدھ کی صبح دنیا کی بلند ترین چوٹی کو سر کیا۔

انھوں نے زیادہ اونچائی پر کم آکسیجن سے ہم آہنگ ہونے میں مدد کے لیے زینون گیس کا استعمال کیا تھا۔

کوہ پیما عام طور پر ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے سے پہلے وہاں چھ سے آٹھ ہفتے گزارتے ہیں۔

منتظمین کا کہنا ہے کہ زینون گیس کے استعمال نے اتنی تیزی سے چڑھائی کو ممکن بنایا ہے۔

لیکن اس گیس کے استعمال کے حوالے سے سائنس کی دنیا میں تنازع ہے اور کوہ پیمائی کی صنعت میں بہت سے لوگوں نے اس پر تنقید کی ہے۔

اگرچہ یہ مہم ہمالیہ کے ماحول سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ایورسٹ پر ایک ریکارڈ مدت میں چڑھائی ہے لیکن یہ ایورسٹ سر کرنے کا اب تک کا تیز ترین وقت نہیں ہے۔

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

یہ ریکارڈ اب بھی لکپا گیلو شیرپا کے پاس ہے، جنھوں نے 2003 میں بیس کیمپ سے چوٹی تک 10 گھنٹے اور 56 منٹ میں چڑھائی کی تھی لیکن انھوں نے یہ کام پہاڑ پر ماحول سے ہم آہنگ ہونے کے بعد کیا تھا۔

مہم کے آرگنائزر لوکاس فرٹن بیک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ 16 مئی کی سہ پہر نکلے اور 21 مئی کی صبح چوٹی پر پہنچے، جس میں چار دن اور تقریباً 18 گھنٹے لگے۔‘

یہ چار سابق فوجی جن میں سابق وزیر ایلسٹر کارنز بھی شامل ہیں، چھ ہفتوں تک برطانیہ میں ایک خصوصی خیمے میں مقیم رہے تاکہ انھیں اونچائی پر آکسیجن کی کم سطح سے ہم آہنگ ہونے میں مدد مل سکے۔ جس کے بعد انھوں نے نیپال کا سفر کیا۔

فرٹن بیک نے بتایا کہ اس کے بعد انھوں نے کھٹمنڈو سے ایورسٹ بیس کیمپ کے لیے اڑان بھری اور جاتے ہی کوہ پیمائی شروع کر دیا۔

کوہ پیما عام طور پر چوٹی سر کرنے سے پہلے چند ہفتوں تک بیس کیمپ اور اونچے کیمپوں کے درمیان اوپر اور نیچے آتے جاتے ہیں۔

انھیں اونچی پہاڑی بلندیوں پر کم آکسیجن کی سطح کی عادت ڈالنے کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔ 8000 میٹر سے اوپر، جسے ڈیتھ زون کہا جاتا ہے، دستیاب آکسیجن سطح سمندر پر موجود آکسیجن کا صرف ایک تہائی ہوتا ہے۔

لیکن ٹیم میں شامل چار برطانوی مردوں نے تیاری کے لیے ایسا کچھ نہیں کیا۔

ماؤنٹ ایورسٹ

،تصویر کا ذریعہReuters

فرٹن بیک نے کہا کہ ’ٹیم نے نیپال آنے سے پہلے مصنوعی اونچائی پر تین ماہ کا پروگرام بنایا تھا۔‘

مصنوعی اونچائی کو ہائپوکسک خیموں کے نام سے جانا جاتا ہے جس سے جنریٹر کا استعمال کرتے ہوئے آکسیجن نکالی جاتی ہے، جس سے اسے اونچی پہاڑی یا اونچائی پر موجود سطح تک لایا جاتا ہے۔

فرٹن بیک نے بتایا کہ اس کے بعد کوہ پیماؤں نے مہم سے دو ہفتے قبل جرمنی کے ایک کلینک میں زینون گیس والی ہوا میں سانس لی۔

زینون ایک ایسی گیس ہے جو ابتدائی طور پر طبی طریقہ کار میں عام بے ہوشی کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ جسم کو اونچائی کی بیماری سے بچانے میں مدد کرتی ہے۔‘

کچھ محققین کا کہنا ہے کہ زینون گیس پروٹین کی پیداوار میں اضافہ کرتی ہے جسے ایریتھروپوئٹین کہا جاتا ہے جو ہائپوکسیا سے لڑتا ہے۔ یہ ایک ایسی حالت جو اس وقت ہوتی ہے جب جسم کو درکار کافی آکسیجن نہیں مل پاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسا خون کے سرخ خلیوں کی تعداد میں اضافے سے ہوتا ہے جن میں ہیموگلوبن ہوتا ہے، جو جسم میں آکسیجن منتقل کرتے ہیں لیکن یہ ایک متنازع موضوع ہے اور بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مزید مطالعہ کی ضرورت ہے۔

کوہ پیمائی کی صنعت میں کچھ لوگوں نے زینون گیس کے استعمال کے خلاف متنبہ کیا ہے۔

انٹرنیشنل کلائمبنگ اینڈ مونٹینیرنگ فیڈریشن نے جنوری میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ’موجودہ لٹریچر کے مطابق اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ زینون میں سانس لینے سے پہاڑوں میں کارکردگی بہتر ہوتی ہے اور اس کا نامناسب استعمال خطرناک ہوسکتا ہے۔‘

’اونچائی سے ہم آہنگ ہونا ایک پیچیدہ عمل ہے جو دماغ، پھیپھڑوں، دل، گردوں اور خون جیسے مختلف اعضاء اور نظاموں کو مختلف درجے تک متاثر کرتا ہے اور اسے اب تک مکمل طور پر سمجھا نہیں جاتا ہے۔‘

’جسمانی نقطہ نظر سے، ایک واحد دوا بہتر ہم آہنگی یا کارکردگی میں اضافے کی کلید نہیں ہوسکتی۔‘

ایڈرین بالنگر جو چین کی طرف شمال سے ایورسٹ کو سر کرنے والی ایک اور ٹیم کے سربراہ ہیں، وہ بھی کوہ پیماؤں کو پہاڑوں پر وقت کم گزارنے سے بچنے کے لیے ہائپوکسک خیموں کا استعمال کرنے جیسی پیشگی تربیت سے گزارتے ہیں۔ لیکن وہ زینون گیس کے استعمال کی مخالفت کرتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ زینون کو کارکردگی میں اضافے میں مدد کے طور پر فروغ دے رہے ہیں لیکن آپ اس بات کا بھی جائزہ لینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ پہاڑوں میں اس کا کیا مطلب ہے تو یہ ایک مسئلہ ہے۔‘

لوگ خود کو ہم آہنگ کرنے اور تربیت دینے کے حقیقی کام کے بجائے شارٹ کٹ لے رہے ہیں۔

معجزاتی گیس

،تصویر کا ذریعہLukas Furtenbach

فرٹن بیک کہتے ہیں کہ اس کے کچھ فوائد ہیں۔

فرٹن بیک کا کہنا تھا کہ ’ایک مختصر مہم سے کاربن کے اثرات کم اور ماحولیاتی اثرات کم ہوتے ہیں۔‘

’اور یہ کوہ پیماؤں کے لیے محفوظ ہے کیونکہ وہ اچھی صحت کے ساتھ پہاڑ پر چڑھ سکتے ہیں اور جب وہ پہاڑ کے ماحول سے ہم آہنگ ہو رہے ہوتے ہیں تو وہ کم وقت کے لیے اونچائیوں اور پہاڑوں کے خطرات کا سامنا کرتے ہیں۔‘

اب جبکہ برطانوی ٹیم نے ایورسٹ کی چوٹی کو سر کر لیا ہے، مہم جؤؤں کا خیال ہے اور کچھ کو تشویش ہے کہ یہ طریقہ دوسرے کوہ پیماؤں کو بھی ترغیب دے سکتا ہے۔

نیپال کی ایکسپیڈیشن آپریٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈمبر پارجولی نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا یقینی طور پر سیاحت کی صنعت پر براہ راست اور منفی اثر پڑے گا کیونکہ کوہ پیماؤں کے قیام کی مدت میں نمایاں کمی آئے گی۔

’اس کے علاوہ، پہاڑوں پر ماحول سے ہم آہنگ ہونا کوہ پیمائی کا بنیادی اصول ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو حکام کو انھیں سرٹیفکیٹ نہیں دینا چاہیے جس سے یہ تصدیق ہو کہ وہ پہاڑ پر چڑھے ہیں۔‘

نیپال کے محکمہ سیاحت کے حکام کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ برطانوی ٹیم ماؤنٹ ایورسٹ پر قیام کے بغیر چوٹی پر پہنچی تھی۔

نیپال کے محکمہ سیاحت کے ڈائریکٹر جنرل نارائن ریگمی نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اب جب ہمیں اس بارے میں معلوم ہوا ہے تو ہم اس معاملے پر تبادلہ خیال کریں گے اور اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔’

SOURCE : BBC