SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہReuters
- مصنف, سٹیو روزنبرگ
- عہدہ, روس کے مدیر، بی بی سی نیوز
-
2 گھنٹے قبل
جب اسرائیل نے ایراان کے خلاف آپریشن ’رائزنگ لائن‘ شروع کیا تو روسی حکام نے مشرق وسطیٰ میں حالیہ کشیدگی کو ’پریشان کن‘ اور ’خطرناک‘ قرار دیا تھا۔
اس کے باوجود روسی میڈیا نے زور دیا کہ ماسکو کے لیے یہ ممکنہ طور پر کیسے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے مندرجہ ذیل دلائل دیے گئے:
- تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ جس سے روسی آمدن میں اضافے کی پیشگوئی کی گئی
- اس سے یوکرین میں روس کی جنگ سے عالمی توجہ ہٹ سکتی ہے۔ ماسکو کے ایک اخبار ماسکوفسکی كومسوموليتس نے یہ شہ سرخی دی تھی کہ ’کیئو کو بھلا دیا گیا۔‘
- اگر کریملن کی ثالثی کی پیشکش قبول کی گئی تو روس خود کو مشرق وسطیٰ کے بڑے کھلاڑی کے طور پر ظاہر کر سکتا ہے اور یوکرین جنگ کے باوجود خود کو امن قائم کرنے والی طاقت ثابت کر سکتا ہے۔
تاہم جیسے جیسے اسرائیلی فوجی آپریشن طول پکڑ رہا ہے ویسے ویسے روس پر یہ واضح ہو رہا ہے کہ حالیہ واقعات سے یہ بہت کچھ کھو سکتا ہے۔
روسی تجزیہ کار آندرے کورتونو نے پیر کو اخبار كومسوموليتس میں لکھا کہ ’کشیدگی میں اضافہ ماسکو کے لیے سنگین خطرات اور ممکنہ نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔‘
’درحقیقت روس اسرائیل کو ایسے ملک کے خلاف وسیع کارروائی سے روکنے میں ناکام رہا جس کے ساتھ روس نے جامع سٹریٹیجک شراکت داری کا معاہدہ کیا تھا۔‘
’واضح ہے کہ ماسکو اسرائیل کی مذمت کے سیاسی بیانات سے آگے جانے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ایران کو فوجی تعاون فراہم کرنے کو تیار نہیں۔‘
رواں سال ولادیمیر پوتن اور صدر مسعود پزشکیان نے روس-ایران سٹریٹیجک پارٹنرشپ ڈیل پر دستخط کیے تھے۔ یہ کوئی فوجی اتحاد کا معاہدہ نہیں۔ اس کے تحت ماسکو پر لازم نہیں کہ تہران کے دفاع میں سامنے آئے۔
مگر اُس وقت ماسکو نے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہReuters

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
خبر رساں ادارے ریانووستی کو دیے ایک انٹرویو میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لارو نے بتایا تھا کہ ایران اور روس کے بیچ اس معاہدے میں علاقائی و عالمی سطح پر امن و سلامتی کے معاملات پر تعاون مزید مضبوط کرنے پر خصوصی دھیان دیا گیا ہے جبکہ یہ خواہش ظاہر کی گئی تھی کہ ’ماسکو اور تہران سکیورٹی اور ڈیفنس میں ایک دوسرے سے قریبی تعاون کریں۔‘
گذشتہ چھ مہینوں کے دوران ماسکو نے مشرق وسطیٰ میں بشار الاسد کی صورت میں ایک قریبی اتحادی کھویا ہے۔
گذشتہ ماہ اسد حکومت گِرنے کے بعد روس نے شامی رہنما کو اپنے ملک میں سیاسی پناہ کی پیشکش کی۔ ایران میں رجیم چینج (حکومت کی تبدیلی) کا امکان اور خطے میں ایک اور علاقائی شراکت دار کھونے کا خیال ماسکو کے لیے بڑی تشویش کا سبب ہو گا۔
منگل کو مشرق وسطیٰ میں پیشرفت پر تبصرہ کرتے ہوئے ماسکوفسکی كومسوموليتس نے یہ خلاصہ کیا کہ: ’عالمی سیاست سے بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی جس سے ہمارے ملک میں زندگی متاثر ہو گی، بالواسطہ یا بلاواسطہ۔‘
ولادیمیر پوتن اس ہفتے کا اکثر وقت سینٹ پیٹرزبرگ میں گزاریں گے۔ یہ شہر انٹرنیشنل اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔
ایک وقت تھا جب اس تقریب کو ’روس کا ڈیوس‘ کہا جاتا تھا۔ مگر اب یہ اصطلاح لاگو نہیں ہوتی۔
حالیہ برسوں کے دوران مغرب کی بڑی کمپنیوں کے سربراہان نے روس سے کنارہ کشی اختیار کی ہے، خاص کر یوکرین میں روس کی مداخلت کے بعد۔
دریں اثنا فورم کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ اس سال اجلاس میں 140 سے زیادہ ممالک اور خطوں کے نمائندے شرکت کریں گے۔
روسی حکام اس تقریب کو یوں ظاہر کرنے کی کوشش کریں گے کہ یوکرین جنگ کو جواز بنا کر روس کو تنہا کرنے کی کوششیں رائیگاں رہی ہیں۔
اگرچہ یہ اکنامک فورم ہے مگر عالمی سیاست اس سے دور نہیں رہتی۔
ہم اس حوالے سے نظر رکھیں گے کہ کریملن کے رہنما مشرق وسطیٰ اور یوکرین پر کیا تبصرے کرتے ہیں۔
SOURCE : BBC