SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہReuters
- مصنف, نکھیل انعامدار
- عہدہ, بی بی سی، لندن
-
2 گھنٹے قبل
جیسے ہی انڈیا نے دنیا کی فیکٹری بننے کے اپنے دیرینہ خواب کی جانب کچھ پیش رفت دکھائی واشنگٹن اور بیجنگ نے ایک نیا تجارتی معاہدہ کر لیا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو انڈیا کے چین کی جگہ عالمی مینوفیکچرنگ کا مرکز بننے کے خواب پر پانی پھیر سکتا ہے۔
گذشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چین پر عائد ٹیرف ایک ہی رات میں 145 فیصد سے کم ہو کر 30 فیصد رہ گیا جبکہ انڈیا پر یہ شرح 27 فیصد برقرار رہی۔ یہ پیش رفت سوئٹزرلینڈ میں امریکہ اور چین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں ہوئی۔
اس کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے نئی دہلی میں قائم تھنک ٹینک گلوبل ٹریڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ (جی ٹی آر آئی) کے سربراہ اجے سریواستو کہتے ہیں: ’جو سرمایہ کاری چین سے انڈیا منتقل ہو رہی تھی، وہ یا تو رُک سکتی ہے یا واپس چین کا رُخ کر سکتی ہے۔ سستی اسمبلی لائنز تو شاید انڈیا میں ہی رہیں لیکن ویلیو ایڈیڈ مینوفیکچرنگ یا جدید اور منافع بخش صنعتیں خطرے میں ہیں۔‘
یہ بدلا ہوا منظرنامہ اس جوش و خروش کے برعکس ہے جو پچھلے مہینے نئی دہلی میں اس وقت دیکھنے کو ملا جب ایپل نے اشارہ دیا تھا کہ وہ امریکہ کے لیے تیار کیے جانے والے آئی فونز کی زیادہ تر پیداوار چین سے انڈیا منتقل کر رہا ہے۔
ممکن ہے کہ ایپل کا منصوبہ اب بھی جاری رہے، اگرچہ صدر ٹرمپ نے بعد میں انکشاف کیا کہ انھوں نے ایپل کے سی ای او ٹِم کُک کو انڈیا میں فیکٹری نہ لگانے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ اُن کے مطابق انڈیا ’دنیا میں سب سے زیادہ ٹیرف لینے والے ممالک میں شامل ہے۔‘
تاہم کیپیٹل اکنامکس کے ماہر معاشیات شِلان شاہ نے معاہدے سے قبل اپنے ایک نوٹ میں لکھا تھا کہ ’فی الحال انڈیا، امریکہ کے لیے چین کا متبادل بننے کی مضبوط پوزیشن میں ہے۔‘ اُن کے مطابق انڈیا کی امریکہ کو کی جانے والی 40 فیصد برآمدات وہی اشیا ہیں جو چین بھی فراہم کرتا ہے۔
چینی مصنوعات کی جگہ لینے کے ابتدائی آثار پہلے ہی سامنے آ چکے تھے۔ انڈین صنعتکاروں کے ایک حالیہ سروے کے مطابق برآمدی آرڈرز کی شرح 14 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
جاپانی بروکرج فرم ’نومورا‘ نے بھی اس رجحان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا خاص طور پر الیکٹرانکس، ٹیکسٹائل اور کھلونوں جیسے شعبوں میں کم اور درمیانی ٹیکنالوجی کی مینوفیکچرنگ میں ہونے والی ’ٹریڈ ڈائیورژن اور سپلائی چین کی تبدیلی‘ سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔

،تصویر کا ذریعہEPA

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگرچہ چین اور امریکہ نے حال ہی میں اپنے تجارتی تعلقات کو ’ری سیٹ‘ کیا ہے لیکن دونوں کے درمیان سٹریٹجک دوری بڑھتی رہے گی اور مستقبل میں اس کا فائدہ انڈیا کو ہو سکتا ہے۔
ایک وجہ یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں نریندر مودی کی حکومت اب غیر ملکی کمپنیوں کو انڈیا میں سرمایہ کاری کی زیادہ کھلی اجازت دے رہی ہے۔ اس نئی پالیسی سے انڈیا کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ انڈیا اور امریکہ ایک ممکنہ تجارتی معاہدے پر بھی بات چیت کر رہے ہیں۔ اگر یہ معاہدہ ہو جاتا ہے تو ایشیا کی تیسری بڑی معیشت ان عالمی کمپنیوں کو اپنی طرف کھینچ سکتی ہے جو اب چین پر انحصار کم کرنا چاہتی ہیں۔
حال ہی میں انڈیا نے برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہسکی اور گاڑیوں جیسے شعبوں پر ٹیکس کم کیے گئے ہیں۔ یہ اشارہ دیتا ہے کہ دلی، امریکہ کے ساتھ جاری مذاکرات میں ٹرمپ کو بھی ایسی رعایتیں دے سکتا ہے۔
لیکن یہ تمام مثبت باتیں ایک طرف، حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے۔
جاپان کے نومورا بینک سے ماہر معاشیات سونل ورما اور آرودیپ نندی کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ چین اب پھر مقابلے میں آ چکا ہے مگر اس کے باوجود دیگر ایشین ممالک بھی اس دوڑ سے باہر نہیں ہیں، ویتنام جیسے ممالک بھی میدان میں موجود ہیں۔
ایسے میں اب انڈیا کو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایسے کسی ٹیرف کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے جس سے کاروبار میں آسانی سے اصلاحات ممکن ہو سکیں۔
کاروبار میں بہت زیادہ مسابقت نے غیرملکی سرمایہ کار کو بھی مایوس کر دیا ہے اور یوں اس سے انڈیا کی مینوفیکچرنگ کی پیداوار رک کر رہ گئی ہے جس سے نئی دہلی کی اس شعبے میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) گذشتہ دو دہائیوں سے 15 فیصد پر رکی ہوئی ہِے۔
مودی حکومت کی پیداوار سے جڑے ریلیف، پروڈکشن لنکڈ انسنٹیو، یعنی پی ایل آئی کی سکیم نے بھی اس تناسب کو بہتر کرنے میں بہت کم کامیابی حاصل کی ہے۔
حکومت کے تھنک ٹینک ’نیتی آئیوگ‘ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ چین سے سرمایہ کار کی دلچسپی کو انڈیا لانے کے لیے حکومت کو زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ اس کے مطابق کم اجرت پر کام کرنے والے مزدور، ٹیکس کے سادہ قوانین، کم ٹیرف اور فعال فری ٹریڈ اگریمنٹس نے ویتنام، تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور ملیشیا جیسے ممالک کی برآمدات کو بڑھانے میں مدد دی ہے جبکہ انڈیا اس شعبے میں پیچھے رہ گیا ہے۔
نومورا کا کہنا ہے کہ ایک اور تشویش کی بات انڈیا کا خام مال کے لیے چین پر انحصار ہے۔ اس خام مال میں وہ الیکٹرانکس کی اشیا اور پرزے بھی شامل ہیں جو آئی فونز میں بھی استعمال ہوتے ہیں اور یہی چیز نئی دہلی کی کمزوری بن کر سامنے آ رہی ہے جس وجہ سے انڈیا اب اس کی سپلائی چین کو مکمل طور پر اپنی طرف نہیں لا سکتا ہے۔
اجے سریواستو نے بی بی سی کو بتایا کہ جب زیادہ فون مقامی سطح پر تیار ہوں گے تو اس سے پھر انڈیا کی آئی فونز سے آمدنی بڑھے گی۔
ان کے مطابق اس وقت ایپل امریکہ میں ہر فون کی فروخت پر 450 ڈالر کما رہا ہے جبکہ انڈیا 25 ڈالر سے بھی کم آمدنی حاصل کرتا ہے حالانکہ 1000 ڈالر کو انڈین برآمدات میں شمار کیا جاتا ہے۔
اجے سریواستو کے مطابق انڈیا کو صرف زیادہ آئی فون کی ’اسیمبلنگ‘ سے زیادہ فائدہ نہیں پہنچے گا جب تک کہ ایپل اور اس کے سپلائرز مقامی سطح پر پرزے بنانا شروع نہیں کر دیتے اور زیادہ اہمیت کا حامل کام یہاں نہیں کرتے۔
ان کی رائے میں اب اس کے بغیر تو انڈیا کے شیئرز بہت محدود ہی رہیں گے اور برآمدات کے اعداد و شمار صرف کاغذ پر ہی زیادہ نظر آئیں گے۔ ممکنہ طور پر اس سے بغیر کسی بڑی آمدنی کے ہی امریکہ کی طرف سے انڈیا کا زیادہ احتساب ہوتا نظر آئے گا۔

،تصویر کا ذریعہReuters
جی ٹی آر آئی کے مطابق اس طرح کے کام کے لیے کوئی بڑی اہم نوعیت کی ملازمتوں کے مواقع بھی نہیں پیدا ہوتے۔
اجے سریواستو کے مطابق ’نوکیا‘ جیسی کمپنیوں کے بالکل برعکس جس نے سنہ 2007 میں انڈیا کے جنوبی شہر چنئی میں ایک فیکٹری قائم کی جہاں سپلائرز اکٹھے ہوئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’آج کے سمارٹ فون بنانے والے زیادہ تر پرزے درآمد کرتے ہیں اور انڈیا میں سپلائی چین بنانے کے بجائے کم ٹیرف کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بعض صورتوں میں کی گئی سرمایہ کاری انڈیا کی پی ایل آئی سکیم کے تحت حاصل کردہ سبسڈی سے کم ہوسکتی ہے۔
آخر میں ایسے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ چینی برآمد کنندگان انڈیا کو استعمال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں تاکہ وہ مصنوعات کو امریکہ بھیج سکیں۔
ایسا لگتا ہے کہ انڈیا اس طرح کے نقصانات سے متعلق زیادہ باخبر نہیں ہے۔ ملک کے سب سے بڑے معاشی مشیر نے گذشتہ برس کہا تھا کہ انڈیا کو چین سے زیادہ کاروبار اپنی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے اور برآمدات والی کمپنیاں قائم کر کے اپنی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انڈیا کے معاشی امور کے مشیر کا یہ بیان اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ انڈیا کی اپنی انڈسٹریل پالیسی نے وہ نتائج نہیں دیے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں اس سے انڈیا کی مقامی دانش اور اپنی صنعتی بنیاد کو بڑھانے کی صلاحیت کو مزید کم کیا جا سکتا ہے۔
یہ سب یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایپل کی طرح کے جتنی بھی بڑے اعلانات اور شہ سرخیاں ہیں اس کے باوجود انڈیا ابھی اپنی مقامی فیکٹری کے خواب سے بہت دور ہے۔
اجے سریواستو نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ اپنی پیداواری لاگت کو کم کریں، لاجسکٹس کو بہتر بنائیں اور ریگولیٹری نظام میں بے یقینی کا خاتمہ کریں۔
ان کے مطابق ہمیں بالکل واضح ہونا چاہیے۔ امریکہ اور چین کے تعلقات کی بحالی خسارے سے بچنا ہے اور یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ انڈیا کو ایک طویل کھیل کے لیے تیار رہنا ہوگا وگرنہ اسے ایک طرف دھکیل دیا جائے گا۔
SOURCE : BBC