Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں انڈیا جھوٹے بیانیے کی بنیاد پر آگ سے کھیل رہا ہے، ہم...

انڈیا جھوٹے بیانیے کی بنیاد پر آگ سے کھیل رہا ہے، ہم ہمیشہ جنگ کے لیے تیار ہیں، اگر جنگ چاہیے تو جنگ سہی: ڈی جی آئی ایس پی آر

5
0

SOURCE :- BBC NEWS

اپ کی ڈیوائس پر پلے بیک سپورٹ دستیاب نہیں

  • مصنف, فرحت جاوید
  • عہدہ, بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
  • 6 گھنٹے قبل

پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایٹمی جنگ ’محض بیوقوفی‘ ہو گی کیونکہ یہ ایک ایسا راستہ ہے جو دونوں ممالک کے لیے ’باہمی تباہی‘ کا باعث بن سکتا ہے، اسی لیے یہ (جوہری جنگ) ’ناقابل تصور اور نامعقول خیال‘ ہونا چاہیے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد پاکستان کی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کئی بین الاقوامی اداروں کو انٹرویوز دیے جن میں بی بی سی بھی شامل ہے۔

بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگرچہ پاکستان امن کا خواہاں ہے، تاہم اگر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو پاکستان ہر وقت اس کے لیے تیار ہے۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان ممکنہ جنگ سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انڈیا جس طرح سے گھمنڈ کا شکار ہے اور جس بیانیے کو فروغ دے رہا ہے تو تنازع تو موجود ہے جس میں ’چنگاری کسی بھی وقت ڈالی جا سکتی ہے۔‘

اس سوال پر کہ کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایٹمی جنگ کا حقیقی امکان ہے یا یہ اب بھی ایک ڈیٹرنس ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انڈیا اپنے بیانیے کی وجہ سے آگ سے کھیل رہا ہے۔

’پاکستان اور انڈیا دونوں ایٹمی ریاستیں ہیں، ان کے درمیان فوجی تصادم ایک انتہائی بیوقوفانہ بات ہے۔ یہ ناقابل تصور ہے۔ یہ ایک غیرمعقول خیال ہے۔ لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ عرصے سے انڈیا ایک ایسی صورتحال بنانے کی کوشش کر رہا ہے جہاں فوجی تصادم کے لیے گنجائش پیدا کی جا سکے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم دیکھتے ہیں کہ ہر چند سال بعد ایک جھوٹا بیانیہ گھڑا جاتا ہے۔ یہ بیانیہ پرانا ہو چکا ہے۔ دنیا بھی اب جان چکی ہے کہ انڈیا کا پہلے دن سے جو موقف تھا، وہ بے بنیاد تھا۔ یہ ہر کچھ عرصے بعد دہرایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں جو حالات بنے، اُن میں پاکستان نے ’بہت بالغ نظری سے‘ ردعمل دیا اور کشیدگی کو بڑھنے سے روکا اور اگر شدت پسندی کے کسی واقعے میں کسی پاکستانی شہری کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں تو ’ہمیں ثبوت دیے جائیں، ہم خود اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔‘

خیال رہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پہلگام حملے کے بعد چھ اور سات مئی کی درمیانی شب انڈیا کی جانب سے چند پاکستانی علاقوں پر فضائی حملے کیے گئے جس کے بعد پاکستان کی جانب سے بھی فضائی کارروائیاں کی گئیں اور بلآخر 88 گھنٹوں پر محیط فوجی ایکشن کے بعد دونوں ممالک نے سیز فائر پر اتفاق کر لیا تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر
مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم امن کو ترجیح دیتے ہیں، ہم امن سے محبت کرتے ہیں، ہم اس وقت پاکستان میں امن کا جشن منا رہے ہیں۔ لیکن ہم ہمیشہ جنگ کے لیے تیار رہتے ہیں۔۔۔ اور اگر جنگ چاہیے، تو پھر جنگ ہی سہی۔‘

اس سوال پر کہ کیا جنگ اب بھی ایک آپشن کے طور پرموجود ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’اصل تنازع اپنی جگہ موجود ہے، اور اس میں چنگاری کسی بھی وقت ڈالی جا سکتی ہے۔ آپ حالات کو دیکھیں، 10 مئی کے بعد کتنے دن گزر چکے ہیں مگر انڈیا میں جو بیانیہ چلایا جا رہا ہے وہ اب بھی جاری ہے۔ انڈیا جس انداز میں بات چیت کر رہا ہے، وہ بنیادی طور پر اپنی داخلی سیاست کو بہتر کرنے کی کوشش لگتی ہے۔ تو کیا آپ کو وہاں کسی ذمہ دار سیاسی قیادت کی جھلک دکھائی دیتی ہے؟ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی ریاست کو ایک دہشتگرد اور ایک دہشتگردی کے واقعے نے یرغمال بنا لیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ انڈیا کی حکومت میں ’کوئی بھی پہلگام کے واقعے سے متعلق سخت سوالات نہیں کر رہا۔ کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ اتنا بڑا سکیورٹی لیپس آخر کیسے ہوا؟ کسی کو ان واقعات کے پیچھے موجود وجوہات کو سمجھنے میں دلچسپی نہیں۔ وہ ان آوازوں کو سننے کو تیار نہیں جو ظلم و زیادتی کی بات کر رہی ہیں۔ یہ واقعات اسی ناانصافی کا نتیجہ ہیں جو وہ خود انجام دے رہے ہیں۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے دونوں ملکوں کے درمیان بیک چینل رابطوں سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’اس سوال کا جواب وزارت خارجہ دے سکتی ہے‘ اور یہ کہ ’سیاست اور سفارتکاری کے معاملات ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ ہم شراکت دار ضرور ہیں، لیکن وہاں مرکزی کردار ادا کرنے والے نہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان نے اس تنازعے کو بہت ذمہ داری سے سنبھالا۔ چھ اور سات مئی کی رات ہم نے دفاع میں بھرپور ردعمل دیا اور ان کے چھ طیارے مار گرائے۔ ہم اس سے زیادہ بھی گرا سکتے تھے، لیکن قیادت بہت ذمہ دار تھی اور بالغ نظری سے فیصلے کر رہی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان نے ان حملوں کے بعد جو نقصان ہوا اس کو کھلے دل سے تسلیم کیا لیکن انڈیا پاکستان کو جواب دینے سے روک نہیں پایا۔ ’کیا ہم رُکے؟ کیا انڈیا پاکستان کو چھ اور سات مئی کی رات کی کارروائی کے جواب سے روک سکا؟ نہیں۔ کیونکہ صرف وہی لوگ رُکتے ہیں جنھیں روکا جا سکتا ہے۔‘

انڈیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈی جی آئی ایس پی آر نے نو اور دس مئی کی درمیانی رات انڈیا اور انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں ان کی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے حوالے سے کہا کہ ’پاکستان نے اس رات نپا تلا، مربوط اور متناسب جواب دیا یہ ایک محدود سطح پر ہماری روایتی فوجی طاقت کا استعمال تھا۔ یہ ہماری تکنیکی صلاحیت کا ایک چھوٹا لیکن نہایت مؤثر مظاہرہ تھا۔ اور اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ انڈیا نے پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ اچانک وہ بات چیت کی بات کرنے لگے اور کشیدگی کم کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے لگے۔‘

اس سوال پر کہ دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر سے متعلق بات چیت کس نے اور کب شروع کی؟ پاکستانی فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ چھ اور سات مئی کی رات حملوں کے بعد ’انڈیا کے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے ہم سے رابطہ کیا اور بات چیت کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہم نے واضح کر دیا کہ ہم صرف اسی وقت بات کریں گے جب اپنا جواب دے چکے ہوں گے۔ ہمارا جواب دس مئی کی صبح آیا۔ اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ ان کا فوجی ترجمان انڈین ٹی وی چینلز پر آ کر آن ریکارڈ کہتا ہے کہ وہ جنگ کو مزید بڑھانا نہیں چاہتے بشرطیکہ پاکستان مزید حملے نہ کرے۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ہم ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ ہم ایک امن پسند قوم ہیں۔ ہم ہی تھے جو کشیدگی کو قابو میں رکھے ہوئے تھے۔ ان کی جانب سے درخواست موجود تھی اور بین الاقوامی ثالث بھی اس عمل میں شریک تھے۔ صدر ٹرمپ کی قیادت کو کریڈٹ دینا چاہیے اور یہ قابلِ تعریف ہے۔ جو بیرونی قوتیں ملوث تھیں، ان کی بھی یہی خواہش تھی، اورانڈین فریق نے بھی عوامی سطح پر کہا کہ وہ مزید کشیدگی نہیں چاہتے۔ تو ہم نے کہا: کیوں نہیں؟‘

احمد شریف ڈی جی آئی ایس پی آر

،تصویر کا ذریعہISPR

دوسری جانب انڈین میڈیا میں اس وقت ملک کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا ایک ویڈیو بیان شیئر کیا جا رہا ہے جس میں انھیں یہ کہتے ہوئے سُنا جا سکتا ہے کہ انڈیا نے پاکستان میں میزائل حملوں سے قبل پاکستانی حکومت کو آگاہ کر دیا تھا کہ انڈیا کی جانب سے پاکستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔

بی بی سی نے یہی سوال جب ڈی جی آئی ایس پی آر سے پوچھا کہ کیا پاکستان کو اس حملے کی پیشگی اطلاع دی گئی تھی؟ انھوں نے یہ جواب دیا کہ ’یہ انڈین میڈیا کی طرف سے چلایا جانے والا ایک مزاحیہ بیانیہ ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جہاں تک پاکستان کی مسلح افواج کا تعلق ہے، ہم اپنی انٹیلیجنس کے لیے انڈین ذرائع پر انحصار نہیں کرتے۔ ہم میڈیا کو پہلے ہی دکھا چکے ہیں کہ جب بھی ان کا کراس سیکشن ریڈار ڈرون داخل ہوتا ہے، ہمیں فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کہاں سے آ رہا ہے۔ ‘

’انڈیا میں حد سے زیادہ خوداعتمادی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک کمزور ملک ہے اور وہ ہمارے ساتھ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ اس تکبر کو ہم نے اس تنازعے کے دوران کئی سطحوں پر توڑا ہے۔ تو جب وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے پہلے سے ہمیں اطلاع دی تھی، تو ہمارا کہنا ہے کہ ہمیں آپ کی طرف سے کسی اطلاع کی ضرورت نہیں۔ ہمیں معلوم ہے آپ کس قسم کے حریف ہیں اور آپ کی صلاحیتیں کیا ہیں۔ بطور فوجی میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ہم انھیں بہت ہی غور سے دیکھتے ہیں۔ وہ کیا کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں؟ ہم ہمیشہ چوکنا اور تیار رہتے ہیں۔‘

اس سوال پر کہ انڈین فوج کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے بہاولپور میں مبینہ طور پر جیشِ محمد کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ انڈیا کا پرانا بیانیہ ہے جو بار بار دہرایا جا رہا ہے۔

’انھوں نے بہاولپور، مریدکے اور مظفرآباد میں جن جگہوں کو نشانہ بنایا، وہ تمام مساجد تھیں۔ میڈیا کو اگلے دن ان جگہوں پر لے جایا گیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ رات کو وہاں دہشتگرد اور ان کے کیمپس موجود ہوں، اور چند گھنٹوں میں، سینکڑوں لوگوں کے بیچ، تمام نشانات مٹا دیے جائیں؟ ان کے پاس ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے نہ کوئی ثبوت ہے، نہ کوئی منطق۔۔۔ حکومت پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو لے آئیں، ہم تحقیقات کریں گے۔ لیکن وہ اس پر بھی آمادہ نہیں۔‘

بی بی سی نے ڈی جی آئی ایس پی آر سے اس تصویر سے متعلق سوال بھی کیا جو انڈیا کے برطانیہ میں ہائی کمشنر نے میڈیا کو دکھاتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ کالعدم جیش محمد سے تعلق رکھنے والے افراد کی نماز جنازہ کے دوران پاکستانی فوج کے سینیئر افسران بھی موجود تھے۔

اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’جہاں تک نمازِ جنازہ کا تعلق ہے، چاہے وہ بہاولپور میں ہوئی ہو، مریدکے میں، یا مظفرآباد میں، حالیہ دنوں میں یا پہلے، جو لوگ مارے گئے وہ ہماری قوم کے بچے تھے۔ میرے پاس ان تمام لوگوں کی تصویریں موجود ہیں جو میں آپ کو دکھا سکتا ہوں۔ ان بچوں کو دیکھیں، ان کے چہرے دیکھیں۔ کیا پاکستان کی فوج ان کے جنازوں میں شریک نہیں ہو گی؟ کیا پاکستانی انتظامیہ وہاں نہیں جائے گی؟‘

مریدکے میں وہ مقام جہاں حملہ ہوا

تاہم اس سوال پر کہ جیشِ محمد ایک ایسی تنظیم ہے جسے بین الاقوامی طور پر دہشتگرد تنظیم تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر اس تنظیم سے منسلک افراد کے اہلخانہ کے جنازوں میں فوجی افسران شریک ہوتے ہیں، تو کیا اسے منفی پیرائے میں نہیں دیکھا جائے گا؟

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ہم نے کب سے انڈیا کی خوشنودی کے لیے فیصلے کرنا شروع کر دیے؟ کہ انڈیا جو کہے، ہم وہی کرنا شروع کر دیں؟ ہم ایسا نہیں کرتے۔ انڈیا میں آج تک اور نہ آئندہ کوئی یہ طے کر سکتا ہے کہ ہم انڈیا کو خوش کرنے کے لیے فیصلے کریں گے۔ ہم اپنے شہدا کو عزت دیتے ہیں۔ یہ فوج، یہ حکومت، یہ ریاست صرف پاکستان کے عوام کی مقروض ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ انڈیا پاکستان میں کسی بھی جگہ بم گرائے اور پھر یہ دعوی کرے کہ وہاں جیش محمد کے لوگ تھے۔ ’ہمیں کوئی ثبوت دیں جو جیشِ محمد کی شمولیت کو ثابت کرے۔ وہ ثبوت لائیں۔ ثابت کریں کہ بہاولپور میں دہشتگردوں کا کوئی تربیتی کیمپ موجود ہے۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ہم دہشتگردی سے نفرت کرتے ہیں۔ ہماری نظر میں دہشتگردوں کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے، نہ عقیدہ، نہ انسانیت سے کوئی تعلق۔ وہ انسانیت سے باہر ہوتے ہیں۔ دہشتگرد بس دہشتگرد ہوتا ہے۔ اگر کوئی بھی شخص کسی پاکستانی شہری کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کا ثبوت دیتا ہے، تو ہم خود کارروائی کریں گے۔‘

SOURCE : BBC