Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں امریکہ اور یوکرین کے درمیان ’نایاب معدنی ذخائر‘ کا معاہدہ: ’شراکت داری...

امریکہ اور یوکرین کے درمیان ’نایاب معدنی ذخائر‘ کا معاہدہ: ’شراکت داری ففٹی ففٹی کی بنیاد پر ہو گی‘

2
0

SOURCE :- BBC NEWS

امریکہ اور یوکرین کے درمیان معدنیات کے اہم معاہدے پر دستخط

،تصویر کا ذریعہUS Department of the Treasur

  • مصنف, ٹام بیٹمین، بیرن ڈیبسمین، ریبیکا تھورن، اینا کنڈرینکو، نوین سنگھ
  • عہدہ, بی بی سی
  • 22 فروری 2025

    اپ ڈیٹ کی گئی ایک گھنٹہ قبل

امریکہ نے کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد یوکرین کے ساتھ توانائی اور معدنی وسائل کے مشترکہ استعمال کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔

کیئو کے لیے امریکی فوجی امداد تک رسائی کے لیے یہ معاہدہ کافی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔

دنیا کے موجودہ نایاب ذخائر سے متعلق یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ زوروں سے جاری ہے۔

معاہدے سے متعلق امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ یوکرین ری کنسٹرکشن انویسٹمنٹ فنڈ میں فروری 2022 میں روس کے حملے کے بعد سے یوکرین کو دی جانے والی ’اہم مالی اور(جنگی) ساز و سامان‘ کی مدد کو تسلیم کیا گیا ہے۔

امریکی وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے معاہدے کے حوالے سے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق یوکرین میں دیرپا امن اور خوشحالی کے لیے پرعزم ہیں۔

واضح رہے کہ یوکرین میں گریفائٹ، ٹائٹینیم اور لیتھیم جیسی اہم معدنیات کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ یہ معدنیات قابل تجدید توانائی، فوجی ساز و سامان کی تیاری اور صنعتوں کے بنیادی ڈھانچے میں استعمال کی جاتی ہیں جس کے باعث ان کی بہت زیادہ مانگ ہے۔

اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے تعمیر نو سرمایہ کاری فنڈ کے قیام پر بھی اتفاق کیا ہے جس کا مقصد روس کے ساتھ جنگ سے یوکرین کی معاشی بحالی کو فروغ دینا ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل یہ معاہدہ اس وقت تاخیر کا شکار ہوا تھا جب امریکی حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یوکرین آخری لمحات میں اس معاہدے میں تبدیلیاں کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

معاہدے کے اہم نکات

صدر ٹرمپ اور پوپ کے درمیان حالیہ ملاقات پوپ فرانس کی آخری رسومات کے دوران ہوئی تھی

،تصویر کا ذریعہEPA

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اس معاہدے میں استعال کیا جانے والا لب و لہجہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے معمول سے کہیں زیادہ یوکرین کے ساتھ یکجہتی ظاہرکر رہا ہے۔

معدنیاتی ذخائر کے معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوئے امریکی وزیر خزانہ نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ اس معاہدے سے یوکرین میں ترقی اثاثوں کو کھولنے میں مدد ملے گی۔

امریکی وزیر خزانہ کے مطابق یہ معاہدہ روس کو پیغام ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک ایسے امن عمل کیلیے پرعزم ہے جس کا محور آزاد، خودمختار اور خوشحال یوکرین ہو۔

اس معادہ میں روس کی جانب سے یوکرین پر پوری شدت سے حملے کا حوالہ دیا گیا ہے اور مزید کہا گیا ہے کہ ’کسی بھی ریاست یا شخص کو، جس نے روسی جنگی ساز و سامان کی فراہمی یا مالی اعانت کی تھی، یوکرین کی تعمیر نو سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

یوکرین کی نائب وزیر اعظم یولیا سویریڈینکو بدھ کے روز اس اہم معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے واشنگٹن گئی تھیں۔

انھوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’نیا فنڈ ہمارے ملک میں عالمی سرمایہ کاری کو راغب کرے گا’

معاہدے کی شقوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس معاہدے میں معدنیات، تیل اور گیس کے منصوبے شامل ہیں جبکہ معدنیاتی وسائل بدستور یوکرین کی ملکیت رہیں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ شراکت داری 50:50 کی بنیاد پر برابر ہوگی ، اور کیئو کیف میں قانون سازوں کی طرف سے اس کی توثیق ضروری ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ معاہدے کے تحت امریکہ یوکرین کو فضائی دفاعی نظام سمیت دیگر نئی امداد فراہم کرے گا

صدر ٹرمپ نے کیئو کو مستقبل میں سلامتی کی کسی بھی ضمانت کی پیش کش کے لیے اس معاہدے کو ایک شرط کے طور پر بار باردہرایا ہے۔

معاہدے کے مسودے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرین مستقبل میں امریکی سکیورٹی امداد کے بدلے میں واشنگٹن کو اپنے کچھ قدرتی وسائل تک رسائی دے گا تاہم یہ ٹرمپ کی ان امیدوں سے کم دکھائی دے رہا ہے جس میں وہ 2022 میں جنگ کے آغاز کے بعد سے دی جانے والی تمام امریکی فوجی امداد کی ادائیگیوں کے لیے پر امید تھے۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے واشنگٹن سے کچھ رعایتیں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

بدھ کی سہ پہر مذاکرات سے واقف ایک امریکی ذرائع نے کیئو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ کچھ شرائط کو دوبارہ منوانے کی کوشش کر رہے ہیں جن کو بظاہر اختتام ہفتہ پر حتمی شکل دے دی گئی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں فنڈ کی گورننس، شفافیت کے معاملات اور دیگر نکات شامل ہیں۔

معدنیات

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ملک کے 500 ارب ڈالر کے معدنیاتی ذخائر تک رسائی فراہم کرنے کی تجویز کو ٹھکراتے ہوئے جب جمعرات کے دن کہا کہ وہ اپنا ’ملک بیچ نہیں سکتے‘ تو بہت سے لوگ یہ سوال کرنے لگے کہ یوکرین کے پاس ایسی کون سی قیمتی معدنیات ہیں جن میں ٹرمپ دلچسی رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ یوکرین میں نایاب زیرزمین معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں تاہم ان میں سے بہت سے ذخائر ایسے علاقوں میں موجود ہیں جن پر اس وقت روسی فوج کا قبضہ ہے۔

ٹرمپ نے تجویز دی تھی کہ اگر یوکرین، روس کے خلاف امریکہ کی حمایت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ یہ ذخائر امریکہ کو دے دے۔ تاہم اس تجویز کے جواب میں صدر زیلینسکی نے کہا کہ ’یہ کوئی سنجیدہ گفتگو نہیں ہے، میں اپنا ملک نہیں بیچ سکتا۔

تاہم ٹرمپ کی تجویز نے یہ تو واضح کر دیا کہ یوکرین میں موجود معدنیاتی ذخائر امریکہ کے لیے اہم ہیں۔ لیکن یہ معدنیات کیا ہیں، اور امریکہ ان سے کو کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے؟

’ریئر ارتھ منرلز‘: نایاب زیرزمین معدنیات کیا ہیں؟

نایاب زیرزمین معدنیات جنھیں ’ریئر ارتھ‘ کہا جاتا ہے کہ 17 ملتی جلتی کیمیائی خصوصیات والی معدنیات ہیں جن کا جدید ٹیکنالوجی میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ معدنیات سمارٹ فون، کمپیوٹر، طبی سامان اور کئی دیگر اشیا کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان میں سکینڈیئم، یٹریئم، لانتھانم، سیریئم، پراسیوڈائمیئم، نیوڈیئم، پرومیتھیئم، سماریئم، یوروپیئم، گاڈولینیئم، ٹیربیئم، ڈسپروسیئم، ہولمیئم، اربیئم، تھولیئم، یٹیربیئم اور لٹیٹیئم نامی معدنیات شامل ہیں۔

انھیں نایاب اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ ان کا خالص حالت میں مل جانا بہت غیرمعمولی سمجھا جاتا ہے تاہم دنیا بھر میں ان کے ذخائر موجود ہیں۔

لیکن اکثر یہ نایاب معدنیات تھوریئم اور یورینیئم جیسے تابکاری عناصر کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور ان کو الگ کرنے کے لیے بہت سے زہریلے اجزا کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور اسی لیے ان کو نکالنے کا عمل پیچیدہ اور مہنگا ہوتا ہے۔

یوکرین میں کون کون سی نایاب معدنیات پائی جاتی ہیں؟

یورپی یونین کی جانب سے جن 30 اجزا کی ’انتہائی اہم مواد‘ کے طور پر تعریف کی گئی ہے ان میں سے 21 یوکرین میں پائی جاتی ہیں اور دنیا میں موجود نایاب معدنیات کے ذخائر کا پانچ فیصد اسی ملک میں ہے۔

جن علاقوں میں یہ ذخائر موجود ہیں ان میں سے زیادہ تر یوکرین کے ’کرسٹلائن شیلڈ‘ نامی علاقے کے جنوب میں ازوو سمندر میں ہیں اور زیادہ تر علاقے روس کے قبضے میں ہیں۔

تاہم کیئو، مڈل بز، ونیٹسیا اور زٹومیر خطوں میں بھی ان کے ذخائر ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ سینکڑوں اشیا کی شناخت ہوئی ہے لیکن ان میں سے چند ہی کو نکالنا معاشی اعتبار سے سودمند ہو گا۔

ایڈم ویب ’بینچ مارک منرل انٹیلیجنس‘ میں بیٹری سے متعلقہ معدنیات کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اب تک جو تخمینے یا اندازے لگائے گئے ہیں وہ صرف اندازے ہی ہیں۔‘

ان کے مطابق ان معدنیاتی ذخائر کو معاشی وسائل میں تبدیل کرنے کے لیے بہت کام کی ضرورت ہے۔ فوربز یوکرین کے مطابق دیگر اہم معدنیات میں سے 70 فیصد ڈونیٹسک، لوہانسک اور ڈنیپروپیٹروسک خطوں میں واقع ہیں اور ان میں سے زیادہ تر علاقے روس کے زیراثر ہیں۔

یوکرین کی حکومت کے مطابق ملک میں ساڑے چار لاکھ ٹن لیتھیئم کے ذخائر ہیں۔ روس نے دو لیتھیئم ذخائر پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔

ٹرمپ یہ معدنیات کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

امریکہ کی ان معدنیات تک رسائی کی خواہش کی ایک بڑی وجہ چین سے مقابلہ ہے جو دنیا میں ایسی نایاب معدنیات کی رسد اور فراہمی کا بڑا کھلاڑی ہے۔

گزشتہ دہائیوں کے دوران چین نایاب معدنیات نکالنے اور انھیں پروسیس کرنے میں عالمی سطح پر بہت آگے نکل گیا اور اس کے پاس ناصرف 60 سے 70 فیصد تک کی پروڈکشن موجود ہے بلکہ 90 فیصد پروسیسنگ بھی چین کے پاس ہی ہے۔

اور چین پر یہ انحصار ہی امریکہ کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ آخر یہی معدنیات جدید ٹیکنالوجی کے لیے ضرروی ہیں جس میں الیکٹرک گاڑیوں سے لے کر اسلحہ تک شامل ہے۔

ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بی بی سی ورلڈ سروس کے ماحولیاتی نامہ نگار نوین سنگھ کا تجزیہ

ٹرمپ نے بائیڈن کی پالیسیوں کو ترک کر کے روایتی ایندھن کی طرف واپس جانے کا عندیہ دیا ہے لیکن ساتھ ہی وہ اہم معدنیات بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو توانائی کے منصوبوں کے لیے بھی اہم ہیں۔

یہی معدنیات الیکٹرانکس، عسکری ضروریات سمیت مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی ڈیٹا مراکز کی تیاری کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔

ٹرمپ مصنوعی ذہانت انفراسٹرکچر کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کے لیے ان معدنیات کی بہت زیادہ مقدار درکار ہو گی خصوصی طور پر کاپر، سیلیکون، پالاڈیئم اور نایاب زیرزمین معدنیات۔

اور ان معدنیات کی فراہمی ایک مسئلہ ہے کیوں کہ اب ان کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ان معدنیات پر چین کا کنٹرول ہی امریکہ اور چین کی چپقلش کی مرکزی وجہ ہے۔

چین قدرتی گریفائیٹ اور ڈسپرسیئم کی 100 فیصد، کوبالٹ کی 70 فیصد اور لیتھیئم اور مینگنیز کی 60 فیصد رسد کا مالک ہے۔ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں موجود ان معدنیات کی بڑی کانوں کی ملکیت چین کے پاس ہے۔

امریکی ایوان نمائندگان میں مسلح افواج کی کمیٹی نے سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں کہا تھا کہ ’چین کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ خود اہم اور سٹریٹیجک معدنیات حاصل کرے۔‘

ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اسی لیے یوکرین اور گرین لینڈ جیسی جگہوں پر نظر جما رکھی ہے۔

SOURCE : BBC