Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں امدادی سامان غزہ تک نہیں پہنچا تو 14 ہزار بچے ہلاک ہو...

امدادی سامان غزہ تک نہیں پہنچا تو 14 ہزار بچے ہلاک ہو سکتے ہیں: اقوام متحدہ

3
0

SOURCE :- BBC NEWS

غزہ میں ابھی تک کوئی امداد تقسیم کرنے میں ناکام

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 11 ہفتوں کی ناکہ بندی کے بعد امدادی گاڑیاں سرحد عبور کرنے کے باوجود غزہ میں ابھی تک کوئی امداد تقسیم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

اسرائیلی حکام نے بتایا کہ منگل کے روز 93 ٹرک غزہ میں داخل ہوئے جن میں آٹا، بچوں کی خوراک، طبی سازوسامان اور ادویات شامل تھیں۔

تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کرم شالوم کراسنگ کے فلسطینی حصے تک ٹرک پہنچنے کے باوجود ابھی تک کوئی امداد نہیں تقسیم کی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے کہا کہ امدادی ادارے کی ایک ٹیم نے اسرائیل سے اس علاقے تک رسائی کی اجازت حاصل کرنے کے لیے کئی گھنٹے انتظار کیا لیکن بدقسمتی سے وہ یہ سامان ہمارے گودام تک نہ لا سکے۔‘

یاد رہے کہ اسرائیل نے اتوار کے روز ’بنیادی خوراک‘ کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

یہ بھی یاد رہے کہ عالمی ماہرین غزا میں قحط کے خطرے سے خبردار کر چکے ہیں اور اس حوالے سے اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ بھی مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم سر کیر سٹارمر نے صورتحال کو ’ناقابل برداشت‘ قرار دیا ہے۔

دوسری جانب یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی اقدامات کی روشنی میں اب اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی معاہدے پر نظرثانی کی جائے گی۔

اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں امدادی کارروائی کو پہنچانے کے عمل کو پیچیدہ بنا دیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ کرم شالوم کراسنگ کے فلسطینی حصے پر سپلائی آف لوڈ کی جائے اور اسرائیلی ٹیموں کی رسائی کے بعد غزہ کی پٹی کے اندر سےسامان دوبارہ لوڈ کرے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ رسد کی آمد ایک مثبت پیشرفت تھی لیکن جتنی ضرورت کے مقابلے میں اس کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

اقوام متحدہ کے محتاط اندازے کے مطابق غزہ کے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے روزانہ 600 ٹرکوں کی ضرورت ہے۔

اس سے قبل اقوام متحدہ کے شعبہ انسانی ہمدردی کے سربراہ ٹام فلیچر نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اگر اسرائیل نے فوری طور پر امداد نہ آنے دی تو غزہ میں ہزاروں بچے مر سکتے ہیں۔

بی بی سی کے ٹوڈے پروگرام سے بات کرتے ہوئے انھوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر فوری امداد نہ ملی تو آئندہ 48 گھنٹوں میں 14,000 بچے بھوک سے مر جائیں گے۔‘

جب ان سے ان اعداد و شمار تک پہنچنے سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ طبی مراکز اور سکولوں میں ان کی ٹیمیں کام میں مصروف عمل ہیں۔ تاہم انھوں نے اس کی تفصیل میں جانے سے گریز کیا۔

بی بی سی نے بعد میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (یو این او سی ایچ اے) سے اعداد و شمار پر وضاحت طلب کی، جس میں بتایا گیا کہ ’ہم غزہ میں شدید غذائی قلت کا شکار اندازاً 14,000 بچوں کو بچانے کے لیے سپلائی حاصل کرنے کی ضرورت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کی درجہ بندی (آئی پی سی) کی ایک رپورٹ پر روشنی ڈالی جس میں کہا گیا ہے کہ اپریل 2025 اور مارچ 2026 کے درمیان چھ سے 59 ماہ کی عمر کے بچوں میں شدید غذائی قلت کے 14,100 سنگین کیسز متوقع ہیں۔

آئی پی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تقریباً ایک سال کے دوران ہو سکتا ہے۔

جب ایک نیوز کانفرنس میں اعداد و شمار کے حوالے سے دباؤ ڈالا گیا تواقوام متحدہ کے ایک ترجمان جینز لیریک نے کہا کہ ’ابھی کے لیے میں صرف اتنا کہوں گا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایسے بچے ہیں جن کی زندگی بچانے کے لیے ان سپلیمنٹس کی فوری ضرورت ہے کیونکہ ان کی مائیں خود انھیں دودھ پلانے سے قاصر ہیں اور اگر یہ سپلیمنٹس ان تک فوری نہ پہنچے تو ان بچوں کی زندگی کو حطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‘

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے غزہ کی وزارت صحت نے اطلاع دی تھی کہ گزشتہ 11 ہفتوں میں غذائی قلت کے اثرات سے 57 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے منگل کو غزہ میں محدود امداد کی اجازت دینے کے اسرائیل کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کو بتایا کہ ’ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ امداد دوبارہ آنا شروع ہو رہی ہے۔‘

ایک ڈیموکریٹ کو جواب دیتے ہوئے مارکو روبیو نے کہا کہ ’میں آپ کی بات کو سمجھتا ہوں کہ یہ مقدار کافی نہیں ہے، لیکن ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ امداد پہنچنا شروع ہو گئی ہے۔‘

پیر کے روز برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کے رہنماؤں نے ایک بیان جاری کیا جس میں اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ’اپنی فوجی کارروائیاں بند کرے اور فوری طور پر انسانی امداد کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے۔‘

SOURCE : BBC