Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں آئی ایم ایف کی 11 نئی شرائط: استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد...

آئی ایم ایف کی 11 نئی شرائط: استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر چھوٹ سمیت وہ شرائط جو عام پاکستانیوں کی زندگی متاثر کر سکتی ہیں

2
0

SOURCE :- BBC NEWS

pakistan

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, تنویر ملک
  • عہدہ, صحافی
  • ایک گھنٹہ قبل

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (ای ایف ایف) کے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے سلسلے میں کچھ نئی شرائط عائد کرنے کے ساتھ کچھ پرانی شرائط پر عملدرآمد کے لیے زور دیا ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ دنوں اس قرض پروگرام کے تحت بین الاقوامی ادارے نے پاکستان کے لیے 1.2 ارب ڈالر کی دوسری قسط جاری کی تھی۔

سنیچر کو جاری ہونے والی سٹاف لیول معاہدے کی جائزہ رپورٹ میں پروگرام، اس کی شرائط اور اس پر عمل درآمد پر جائزے کے ساتھ کچھ نئی شرائط بھی عائد کی گئی ہیں تاکہ ان پر عملدرآمد کر کے اس پروگرام کے تسلسل کو برقرار رکھا جا سکے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے اپنی نئی رپورٹ میں پاکستان میں معیشت اور گورننس کے شعبوں میں 11 نئی شرائط عائد کرنے کے ساتھ کچھ پرانی شرائط پر عملدرآمد کرنے کے لیے بھی زور دیا گیا اور ان کے لیے ٹائم فریم بھی دیا گیا ہے۔

آئی ایم ایف کی نئی شرائط کے متعلق آئی ایم ایف امور کی کوریج کرنے والے صحافی اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد پاکستان کے مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہے تاکہ مالی خسارہ کم ہو۔

تاہم ان کے بقول یہ شرائط حکومتی شعبوں اور عام پاکستانیوں کی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔

آئی ایم ایف کی جانب سے دیگر شرائط کے علاوہ پاکستان میں پرانی گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے بھی چھوٹ دی گئی جس کے باعث ان کی قیمتوں میں نمایاں تبدیلی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ آئیے پہلے جانتے ہیں کہ یہ 11 شرائط ہیں کیا۔

آئی ایم ایف

،تصویر کا ذریعہGetty Images

قرض پروگرام کے تسلسل کے لیے 11 نئی شرائط

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے جاری کردہ رپورٹ میں 11 نئی شرائط یا تجاویز مقرر کی گئی ہیں جن پر پاکستان کو عملدرآمد کرنے کے لیے کہا گیا ہے تاکہ قرض پروگرام کو جاری رکھا جا سکے۔

ان 11 شرائط میں سر فہرست ملک کے نئے مالی سال کے بجٹ کو آئی ایم ایف سٹاف لیول معاہدے کے تحت بنا کر پارلیمان سے منظور کروانے کا مطالبہ ہے۔

آئی ایم ایف شرائط کے مطابق مالی سال 2026 کے بجٹ کی پارلیمانی منظوری آئی ایم ایف سے طے شدہ اہداف کے مطابق جون 2025 کے آخر تک حاصل کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔

دوسری شرط میں زرعی آمدن پر نیا ٹیکس لاگو کرنے کے لیے ایک جامع پلان بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں ریٹرن فائلنگ، ٹیکس دہندہ کی شناخت، رجسٹریشن، آگاہی مہم اور تعمیل میں بہتری لانے کے منصوبے شامل ہیں۔ اس کی آخری تاریخ 30 جون 2025 مقرر کی گئی ہے۔

تیسری شرط کے مطابق حکومت کو ایک گورننس ایکشن پلان شائع کرنا ہو گا تاکہ اہم حکومتی کمزوریوں کی اصلاح کی جا سکے۔

چوتھی شرط حکومتی کفالت پروگرام جیسے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دی جانے والی نقد امداد میں سالانہ مہنگائی کے تناسب سے اضافہ ہے تاکہ خریداری کی حقیقی قوت برقرار رہے۔

پانچویں شرط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت کو 2027 کے بعد کے مالیاتی شعبے کی حکمت عملی پر مبنی ایک منصوبہ شائع کرنا ہو گا جس میں 2028 کے بعد کا ادارہ جاتی اور ضابطہ جاتی فریم ورک شامل ہو۔

توانائی کے شعبے میں چار نئی شرائط عائد کی گئی ہیں۔

پہلی شرط میں حکومت کو یکم جولائی تک بجلی اور گیس کے نرخوں کی سالانہ بنیاد پر نظرثانی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہو گا تاکہ نرخ لاگت کی بنیاد پر برقرار رہیں۔ دوسری شرط میں گیس کے نرخوں کی ششماہی بنیاد پر ایڈجسٹمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہو گا۔

تیسری شرط میں پارلیمان کو رواں ماہ کے آخر تک کیپٹو پاور لیوی آرڈیننس کو مستقل قانون بنانے کے لیے قانون سازی کرنی ہو گی۔ اس شعبے کی چوتھی شرط میں ایک اور قانون سازی کے تحت بجلی کے بلوں میں قرض ادائیگی سرچارج پر زیادہ سے زیادہ کی حد کو ختم کرنے کا کہا گیا ہے جس کی لیے جون کے آخر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔

تجارت، سرمایہ کاری اور ڈی ریگولیشن کے شعبے میں آئی ایم ایف کی جانب سے دو مطالبات کیے گئے۔

پہلی شرط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان سپیشل ٹیکنالوجی زونز اور دیگر صنعتی زونز میں دی گئی تمام مراعات کو 2035 تک مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کرے گا، جو سال کے آخر تک مکمل کرنا لازم ہے۔

دوسری شرط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ پر پابندی ختم کرے جو ابتدائی طور پر پانچ سال سے کم استعمال کی گئی گاڑیوں کی درآمد پر پابندیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔ یہ قانون سازی جولائی کے آخر تک کرنا ہو گی۔

قومی اسمبلی، اورنگزیب، وزیر خارجہ

،تصویر کا ذریعہNATIONAL ASSEMBLY OF PAKISTAN

نئے بجٹ کی منظوری آئی ایم ایف سے مشروط

اس بارے میں آئی ایم ایف اور پاکستان کے امور کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی مہتاب حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ بہت اہم شرط ہے اور پہلی بار یہ شرط آئی ہے کہ سٹاف لیول معاہدے کے تحت نیا بجٹ بنے گا۔

انھوں نے کہا اس کا مطلب ہے کہ جو نیا بجٹ ہو وہ اس طرح بنے کہ اس میں سٹاف لیول معاہدے میں طے پانے والے تمام اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔

مہتاب حیدر نے کہا کہ اس سلسلے میں پرائمری بجٹ یعنی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے بغیر اسے سرپلس کرنا ہو گا جس کے لیے ریونیو میں اضافہ اور اخراجات میں کی کرنا ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ فی الحال دفاعی بجٹ تو کم نہیں ہو گا تاہم ترقیاتی بجٹ پر کٹ لگ سکتا ہے۔ اسی طرح حکومت بظاہر بجٹ میں بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان تو کر سکتی ہے تاہم ان حالات میں لگتا ہے کہ انھیں شروع یا مکمل نہیں کیا جا سکے گا۔

کیا بجلی و گیس کے بِلوں میں اضافہ ہو گا؟

آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی و گیس کے شعبے میں جن شرائط کا کہا گیا ہے ان میں اس شعبے میں ٹیرف پر سالانہ بنیادوں پر نظر ثانی شامل ہے جبکہ اسی طرح بجلی کے بل میں قرض سرچارج کی حد کو کم کرنے کا کہا گیا ہے جو اس وقت 3.21 روپے فی یونٹ ہے اور اس شرط کو جون کے آخر تک مکمل کرنا ہو گا۔

تجزیہ کار مہتاب حیدر نے بتایا کہ ’بجلی و گیس کے شعبے میں ان شرائط کا مقصد ان کی پیداوار پر اٹھنے والی لاگت کو پورا کرنا ہے۔ پاکستان میں بجلی و گیس کی لاگت پوری طرح ریکور نہ ہونے کی وجہ سے اس شعبے میں گردشی قرضہ کئی سو ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔‘

مہتاب حیدر نے کہا کہ ’گیس کی قیمت بڑھنے کا امکان ہے جس سے صارفین کو زیادہ بل ادا کرنے پڑ سکتے ہیں۔ ان کے مطابق قرض سر چارج پر عائد حد کے خاتمے سے بجلی کی قیمت پر بھی کچھ اثر ہو سکتا ہے۔‘

توانائی شعبے کے ماہر راؤ عامر علی نے اس سلسلے میں بی بی سی کو بتایا کہ ’بجلی و گیس کے لیے سالانہ بنیادوں پر ٹیرف پر نظر ثانی کی جو شرط آئی ایم ایف کی جانب سے آئی ہے اس میں پاکستان سے کہا گیا کہ اس پر عملدرآمد کریں کیونکہ ملک میں پہلے سے سالانہ بنیادوں پر ان دونوں کے ٹیرف پر نظر ثانی کی جاتی ہے۔‘

ان کے مطابق ’بجلی کی قیمت میں اضافے کا امکان نہیں اور توقع ہے کہ اس میں تھوڑی کمی آئے گئی۔ سرچارج پر حد کے خاتمے کی شرط کا مقصد یہ ہے کہ گردشی قرضے کے خاتمے کے لیے بینکوں سے جو پیسہ لیا گیا ہے وہ اگر شرح سود بڑھتی ہے تو سرچارج میں اضافہ کر کے اس کی وصولی کی جائے تاکہ بجلی کے شعبے میں گردشی قرضہ زیادہ نہ ہو۔‘

پاکستان، گاڑیاں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر چھوٹ

آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو کہا گیا ہے کہ وہ پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ پر پابندی ختم کرے جو ابتدائی طور پر پانچ سال سے کم استعمال ہونے والی گاڑیوں کی درآمد پر پابندیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔ یہ قانون سازی جولائی کے آخر تک کرنا ہو گی۔

آئی ایم ایف کے مطابق اس کا مقصد آزادانہ تجارت کو فروغ دینا ہے۔

آل پاکستان موٹرز ڈیلرز اسوی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تین سال سے پانچ سال تک کی گاڑی درآمد کرنے کی اجازت سے امپورٹڈ گاڑی سستی ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ گاڑیوں کی امپورٹ پر ٹیکسوں کو الگ کر کے بھی دیکھا جائے تو تین سال پرانی گاڑی اگر تین ہزار ڈالر میں امپورٹ ہو رہی ہے تو پانچ سال پرانی گاڑی 1400 سے 1500 ڈالر میں امپورٹ ہو گی جس سے عام افراد فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘

آٹو شعبے کے ماہر مشہود علی خان نے اس سلسلے میں کہا کہ آئی ایم ایف کی شرط پر عمل کرنے سے گاڑی سستی ہونے کا انحصار ڈیلر پر ہے کہ وہ کار کتنی سستی فروخت کرتا ہے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ ’اس سے لوکل آٹو پارٹس انڈسٹری بری طرح متاثر ہو گی کیونکہ گاڑیاں بنانے والے ادارے تو باہر سے پوری گاڑی امپورٹ کر کے بھی بیچ سکتے ہیں تاہم لوکل آٹو پارٹس انڈسٹری کی پیداوار اس سے منفی طور پر متاثر ہو گی۔‘

پاکستان آٹو موٹو مینوفیکچررز اسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’اسوسی ایشن اس سلسلے میں حکومت سے بات کرے گی تاہم انھوں نے کہا کہ اس شرط کی وجہ سے مقامی گاڑیاں تیار کرنے والی صنعت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘

خیال رہے کہ فی الحال ایف بی آر کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی شخص تمام تقاضے پورے کر کے، یعنی ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کر کے، نئی گاڑی درآمد کر سکتا ہے تاہم استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے سمندر پار پاکستانیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

اکثر استعمال شدہ گاڑیاں جاپان سے گفٹ سکیم کے تحت درآمد کی جاتی ہیں۔ امپورٹ پالیسی آرڈر 2022 کے تحت فی الحال تین سال سے زیادہ پرانی گاڑی کی درآمد کی اجازت نہیں ہے۔

گفٹ سکیم میں سمندر پاکستانی اپنے خاندان (والدین، بہن بھائی، بچوں، شوہر یا بیوی) کو تحفے میں کار بھیج سکتے ہیں۔ اس حوالے سے بیرون ملک کرنسی میں ہی ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کیے جاتے ہیں۔

پاکستان، زرعی ٹیکس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

زرعی ٹیکس کی وصولی

آئی ایم ایف کی اس شرط سے متعلق پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیاں پہلے ہی قانون سازی کر چکی ہیں۔

مگر آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ زرعی ٹیکس کی وصولی کے لیے اس مالی سال کے آخر تک پاکستان کو طریقہ کار وضع کرنا ہے۔

اس کے بارے میں ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’قانون سازی تو ہو گئی ہے لیکن صوبے اس سلسلے میں ابھی بھی سست روی کا شکار ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ زرعی ٹیکس اکٹھا ہونا ہے تاہم ابھی تک اس کے ریٹ بھی نہیں نکالے گئے کہ ٹیکس کا ریٹ کیا ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اسی طرح زرعی ٹیکس کے ریٹرن فائل کرنے کا طریقہ کار بھی انگریزی میں ہے جو ایک عام کسان اور زمیندار کے لیے پریشان کن ہے۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ تیس جون تک یہ طریقہ کار وضع کریں تاہم ابھی تک کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو سکی۔‘

ان کے مطابق ملک میں زرعی ٹیکس کا نفاذ ضروری ہے تاہم اس کی وصولی کا جو معیار رکھا گیا ہے کہ چھ لاکھ آمدن پر یہ لگے گا وہ ’چھوٹے کسانوں اور زمینداروں کے لیے مالی طور پر مشکل ہو گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ زرعی لاگت بڑھ گئی ہے اور اب ان کے لیے اس لاگت کو برداشت بھی کرنا ہے اور اس پر ٹیکس بھی دینا ہے، جو کہ ان کی مالی مشکلات بڑھا سکتا ہے۔

’سول سرونٹس اپنے اثاثے ظاہر کریں‘

آئی ایم ایف کی جانب سے اِن 11 نئی شرائط میں سول سرونٹس کے اثاثوں کی شرط تو شامل نہیں ہے تاہم جن تجاویز پر زور دیا گیا ان میں سے ایک شرط سول سرونٹس کے اثاثوں کو پبلک کرنے سے متعلق ہے۔

عالمی ادارے نے پہلے اس کے لیے فروری 2025 کی شرط مقرر کی تھی تاہم اس پر عملدرآمد نہ ہونے کہ وجہ سے عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اب اسے جون کے مہینے کے اختتام پر پورا کیا جائے۔

ڈاکٹر اکرام الحق نے اس سلسلے میں بتایا کہ یہ شرط بنیادی طور پر گورننس اور شفافیت کے زمرے میں آتی ہے جس میں 21 اور 22 گریڈ کے سول سروس کے افسران شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے ملٹری اور سول سروس دونوں کے افسران کے اثاثوں کو پبلک کرنے کا کہہ رکھا ہے تاہم ابتدائی طور پر سول افسران کے اثاثوں کو ظاہر کرنے کا کہا گیا ہے۔

SOURCE : BBC