SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, اٹاوالپا امیرائز
- عہدہ, بی بی سی، منڈو
-
ایک گھنٹہ قبل
امریکہ اور سعودی عرب نے منگل کو اربوں ڈالر کے ایک تاریخی اقتصادی اور فوجی امدادی پیکج پر دستخط کیے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق 600 ارب ڈالر سے زیادہ کے اس پیکج میں ’تاریخ کا سب سے بڑا ہتھیاروں کا سودا‘ بھی شامل ہے۔
اس پیکج کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ریاض کے دوران کیا گیا۔ اس میں دفاع، توانائی، انفراسٹرکچر اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں میں تعاون شامل ہے۔ اس کے ساتھ سعودی عرب امریکہ میں ڈیٹا سینٹرز، ایوی ایشن، صحت اور معدنیات میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
یہ تمام اعلانات ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے چار روزہ دورے کے پہلے دن کیے گئے جس کا آغاز سعودی عرب سے ہوا تھا۔
غزہ کی جنگ، ایران کے ساتھ کشیدگی اور پڑوسی ملک یمن میں حوثی باغیوں کے حملوں کے درمیان دونوں ملکوں کے تعلقات کے 80 سال بھی مکمل ہو گئے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اربوں ڈالر کا دفاعی معاہدہ
وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے اعلان کردہ پیکیج میں 600 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے اقتصادی، تجارتی اور فوجی معاہدے شامل ہیں۔
ان میں سب سے بڑا سودا امریکہ کا اپنے عرب شراکت داروں کو تقریباً 142 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت ہے۔ امریکہ نے اسے ’تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی معاہدہ‘ قرار دیا ہے۔
معاہدہ پانچ اہم نکات پر مشتمل ہے:
- سعودی عرب کی فضائی اور خلائی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا
- میزائل دفاعی نظام
- میری ٹائم اور کوسٹل سکیورٹی
- زمینی اور سرحدی افواج کی جدید کاری
- معلومات اور مواصلاتی نظام کی بہتری
اس میں سعودی عرب کی فوج کی آپریشنل صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے تربیت اور تکنیکی مدد کے پروگرام بھی شامل ہیں۔
ٹرمپ نے اعلان کے بعد ایک تقریر میں کہا، ’میں امریکہ کے دفاع یا اپنے اتحادیوں کے دفاع کے لیے امریکی طاقت استعمال کرنے سے کبھی نہیں ہچکچاؤں گا۔‘
خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار ڈینیئل ڈی پیٹرس نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ اربوں ڈالر کا یہ معاہدہ ایک علاقائی فوجی طاقت کے طور پر سعودی عرب کی پوزیشن کو مضبوط کرتا ہے۔ تاہم، انھوں نے واضح کیا کہ ’سعودی عرب کی مسلح افواج کے پاس پہلے ہی امریکی سازوسامان موجود ہے۔ ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اس معاہدے کے اعلان کے دوران تعریفی کلمات سننے کو ملے اور ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان قربتیں بھی نمایاں تھیں۔
امریکی صدر کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ان کے ساتھ ایلون مسک اور بلیک راک اور بلیک سٹون جیسے حکام بھی موجود تھے۔
یہ پروقار استقبالیہ تقریب اس استقبال کے برعکس ہے جو سابق امریکی صدر جو بائیڈن کو دورہ سعودی عرب کے دوران ملا تھا۔ بائیڈن نے 2022 میں تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب کا سفر کیا تاکہ پٹرول کی قیمتوں کو کم کرنے میں مدد کی جا سکے۔ اس وقت ولی عہد کی طرف سے بائیڈن کے استقبال میں اتنی گرمجوشی نہیں تھی۔
سنہ 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہوگئے، اس کے بعد بائیڈن نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔
تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ پیچھے رہ گیا ہے۔
ٹرمپ کی تعریف

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ڈونلڈ ٹرمپ نے دوطرفہ تعلقات میں مثبت رفتار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مل کر بے مثال اور زبردست پیش رفت کی ہے۔
انھوں نے اسے مشرق وسطیٰ کے لیے ’ایک روشن نئے دور‘ کا آغاز قرار دیا۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’ایک ہزار سال میں پہلی بار دنیا اس خطے کو جنگ اور موت کی جگہ نہیں بلکہ امید اور مواقع کی سرزمین کے طور پر دیکھے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم مل کر کام کریں گے، ہم ایک ساتھ کامیاب ہوں گے، ہم مل کر جیتیں گے اور ہم ہمیشہ دوست رہیں گے۔‘
دریں اثنا، محمد بن سلمان نے معاہدے کو دونوں ممالک کے درمیان ’گہرے اقتصادی تعلقات‘ کا مظہر قرار دیا۔
انھوں نے یقین دلایا کہ آنے والے مہینوں میں اس معاہدے کو وسعت دی جائے گی اور اس کی مالیت ایک ٹریلین امریکی ڈالر تک بڑھا دی جائے گی۔ ولی عہد نے زور دے کر کہا کہ تعاون صرف اقتصادی شعبے تک محدود نہیں ہے بلکہ سلامتی، استحکام اور علاقائی امن کے لیے بھی ہے۔
دفاع کے علاوہ اس بڑے پیکیج میں اقتصادی اور تکنیکی شعبے بھی شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، ان میں سعودی عرب کی کمپنی ڈیٹا وولٹ کی جانب سے امریکہ میں ڈیٹا سینٹرز اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری اور گوگل اوریکل، سیلز فورس، اے ایم ڈی اور اوبر جیسی ٹیک کمپنیوں کے درمیان شراکت داری شامل ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان گیس پائپ لائن اور ٹربائن کی برآمد سے متعلق 14.2 ارب ڈالر کے معاہدے پر بھی دستخط ہوئے۔
اس پیکج میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کو امریکی صنعت میں لانے کے لیے سیکٹرل فنڈز بنانے کی بھی بات کی گئی ہے۔ اس میں توانائی کے شعبے کے لیے پانچ ارب ڈالر، ایرو سپیس اور دفاعی ٹیکنالوجی کے لیے پانچ ارب ڈالر اور عالمی کھیلوں کے لیے چار ارب ڈالر کا فنڈ بنانے کی بات کی گئی ہے۔
کان کنی اور معدنی وسائل، توانائی اور ایرو اسپیس میں تعاون کے لیے مفاہمت کی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے گئے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
سعودی عرب بمقابلہ ایران
گذشتہ ایک دہائی کے دوران سعودی عرب نے اپنے آپ کو علاقائی فوجی طاقت کے طور پر قائم کرنے کے لیے اربوں ڈالر کے جدید ہتھیاروں کی سرمایہ کاری کی ہے۔
ماہرین کے مطابق امریکہ کے ساتھ میگا ڈیل بالخصوص 142 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدے نے سعودی عرب کی جدید کاری کی راہ ہموار کی ہے۔ اس معاہدے نے امریکہ کے ساتھ اس کی سٹریٹجک شراکت داری کو بھی گہرا کر دیا ہے، جو دفاعی تعاون پر مرکوز ہے۔
پینٹاگون کے ایک سابق اہلکار اور واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ تھنک ٹینک کے سینئر فیلو گرانٹ رملی نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں اپنی فوجی صلاحیتوں کو بڑھانے میں پیش رفت کی ہے، خاص طور پر فضائی دفاع کے شعبے میں۔‘
راملی نے یمن میں حوثی باغیوں کے ساتھ جاری لڑائی میں سعودی عرب کی پیش رفت کا حوالہ دیا، جہاں سعودی عرب کے فضائی دفاعی نظام کا بارہا تجربہ کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ نئے معاہدے کا مقصد ’دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور دفاعی تعلقات کو مضبوط بنانا اور سعودی عرب کے علاقائی حریفوں بالخصوص ایران کو ڈیٹرنس کا پیغام دینا ہے۔‘
سعودی عرب اور ایران کے درمیان برسوں سے جاری دشمنی نے مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی سیاسی منظر نامے اور خطے میں موجودہ تنازعات کو متاثر کیا ہے۔
تجزیہ کار ڈینیئل ڈی پیٹرس کا کہنا ہے کہ ایک طرف سعودی عرب جدید مغربی فوجی ٹیکنالوجی بالخصوص امریکی ٹیکنالوجی کے حصول میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران پر عائد پابندیوں کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ایران اب بھی خطے میں اپنی طاقت مفادات کے تحفظ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ یہ جزوی طور پر ضروری ہے کیونکہ امریکی پابندیوں نے ایران کو مغربی فوجی ٹیکنالوجی تک رسائی سے روک دیا ہے۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ موجودہ شرائط پر براہ راست مقابلہ کرنے کے بجائے، ایران نے سستے لیکن موثر دیسی میزائلوں، ڈرونز اور دیگر ضروری آلات میں سرمایہ کاری کی ہے۔
ڈی پیٹرس کا کہنا ہے کہ ’دوسری طرف، سعودی عرب کے پاس ملکی دفاعی صنعت کی کوئی بڑی صنعت نہیں ہے۔ لیکن ان کے پاس ہر سال اربوں ڈالر مالیت کے مغربی ہتھیار خریدنے کے لیے پیسے ہیں۔‘
ڈی پیٹرس کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں فوجی طاقت کو صرف ہتھیاروں کے معیار کی بنیاد پر نہیں ماپا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب کا مسئلہ دفاعی سازوسامان کی کمی نہیں بلکہ ماضی میں اس کا استعمال ہے۔ اگر اس کی حکمت عملی ناقص ہے تو بہترین لڑاکا طیارے یا میزائل بھی اس کی تلافی نہیں کر سکتے۔‘
اس حوالے سے انھوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ کے ساتھ ہونے والی نئی میگا ڈیل میں نہ صرف سعودی عرب کو بہت زیادہ دفاعی سازوسامان دینے کی بات کی گئی ہے بلکہ اسے ان کو چلانے کی صلاحیت اور اس سے منسلک سٹریٹجک صلاحیتیں بھی دی جائیں گی۔ ’اس سے وہ ان وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کر سکے گا۔‘
SOURCE : BBC