SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, تابندہ کوکب، ریاض مسرور
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام
-
ایک گھنٹہ قبل
23 اپریل کو آدھی رات کا وقت تھا جب دروازے پر دستک ہوئی، باہر جا کر دیکھا تو وہاں پولیس موجود تھی جو اُس گھر میں رہنے والی 73 سالہ بزرگ خاتون حمیدہ بی بی (فرضی نام ) کو لینے آئی تھی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ حمیدہ بی بی کو ابھی اور اِسی وقت واپس پاکستان جانا ہو گا۔
پورے خاندان کے لیے یہ خبر کسی سے آفت سے کم نہیں تھی کیونکہ، اُن کے بقول، انھیں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے مسلح افراد کی جانب سے کیے گئے اُس حملے کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا تھا جس سے اُن کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
حمیدہ بی بی کی شادی کو 46 سال ہو چکے ہیں اور اُن کے تینوں بچے بھی اب شادی شدہ ہیں۔ 73 سالہ حمیدہ بی بی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے اُن درجنوں افراد میں شامل ہیں جنھیں پہلگام حملے کے بعد غیر ملکی (پاکستانی) شہری ہونے کے وجہ سے فوری طور پر ملک سے بیدخل کر کے پاکستان واپس بھیج دیا گیا ہے۔
اہلخانہ کے مطابق اُس رات حمیدہ بی بی کے داماد نے پولیس کو اِس وعدے کے ساتھ واپس لوٹا دیا کہ صبح وہ خود اپنی بوڑھی ساس کو لے کر پولیس سٹیشن پہنچ جائیں گے۔ اور اگلے ہی روز حمیدہ بی بی کو پاکستان واپس بھیجنے کے لیے انڈیا، پاکستان سرحد پر بھیج دیا گیا۔
حمیدہ بی بی کے علاوہ وہاں پہنچنے والے لگ بھگ 25 افراد میں حمیدہ کے ایک کزن کی بہو بھی شامل تھیں۔
حمیدہ بی بی کے کزن کے بیٹے کی شادی چار سال پہلے ہوئی تھی اور اُن کی اہلیہ بھی پاکستانی ہیں جن کی تین بیٹیاں ہیں اور سب سے چھوٹی کی عمر محض ڈیڑھ ماہ ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
بے دخلی کی کیا وجہ تھی؟
73 سالہ حمیدہ بی بی کے والدین کا تعلق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے بارہمولہ سے تھا تاہم وہ 78 برس قبل وہاں سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر منتقل ہو گئے تھے۔

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
اگرچہ حمیدہ بی بی کے والدین پاکستان کے زیر انتظام کشمیر منتقل تو ہو گئے تاہم ان کا انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں موجود اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ تعلق رہا۔
حمیدہ بی بی کے بھائی شاہد زرگر نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 1979 میں حمیدہ بی بی کی شادی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے اُن کے ماموں زاد بھائی سے ہو گئی جس کے بعد حمیدہ انڈین کشمیر منتقل ہو گئیں۔ ان کے مطابق حمیدہ بی بی شادی کے بعد لگ بھگ آٹھ سال اپنے شوہر کے گھر رہیں مگر سنہ 1987 میں وہ واپس پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اپنے آبائی علاقے مظفر آباد چلی آئیں اور یہاں تین سال درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہیں۔
اُن کے مطابق اُس وقت اُن کے شوہر سے بھی کہا گیا کہ وہ مظفر آباد منتقل ہو جائیں لیکن انھوں نے اپنے آبائی علاقے میں رہنے کو ترجیح دی۔ یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب انڈیا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر بسنے والے افراد باآسانی اِدھر اُدھر منتقل ہو سکتے تھے اور زیادہ پابندیاں نہیں تھیں۔
حمیدہ بی بی نے تین سال مظفرآباد میں بطور ٹیچر کام کیا اور سنہ 1990 میں ایک مرتبہ پھر چھٹی لے کر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر اپنے شوہر کے پاس چلی گئیں۔ انھوں نے وہیں ملازمت اختیار کر لی اور سکول میں پڑھانے لگیں۔ سنہ 2009 میں انھیں ایک بار پھر موقع ملا تو وہ اپنے بہن بھائیوں سے ملنے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آ گئیں۔
اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ یہاں مختصر قیام کے بعد جب وہ واپس گئیں تو انھیں پتا چلا کہ اُن کے 1990 میں کشمیر جانے اور 19 سال وہاں قیام کرنا کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
کشمیر میں شہریت کے لیے کم از کم سات سال کی مستقل رہائش ضروری ہے تاہم ان کے قیام کا ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے انھیں شہریت نہیں مل سکی۔ حمیدہ کے بھائی کے مطابق اُن کی بہن کی شہریت کا کیس کئی برسوں سے کشمیر کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
’شوہر سے دوری کا صدمہ بہت بڑا ہے‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
جس وقت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے بے دخل کیے جانے کے لیے حمیدہ بی بی اور دیگر افراد کو سرکاری گاڑیوں پرسوار کیا جا رہا تھا تو انھوں نے انڈین میڈیا سے بات چیت میں اپنے جذبات کا اظہار کیا اور سوال کیا کہ اتنے برسوں بعد بھی انھیں انڈین سرکار کی طرف سے شہریت نہیں دی گئی تو اس میں اُن کا کیا قصور ہے؟
پاکستان پہنچنے پر بی بی سی نے حمیدہ بی بی سے رابطے کے کوشش کی تاہم اُن کے اہلخانہ نے بتایا کہ وہ اس واقعے کے باعث اِس قدر سہمی ہوئی اور صدمے کا شکار ہیں کہ اب وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتیں۔ اہلخانہ کے مطابق انڈیا سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیو پر نفرت آمیز تبصروں نے انھیں مزید خدشات میں مبتلا کر دیا ہے کہ کہیں مستقبل میں اُن کی واپسی ناممکن نہ ہو جائے۔
اُن کی بھائی شاہد زرگر نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے خاندان کو جب حمیدہ بی بی کے بے دخل کیے جانے کی خبر ملی تو یہ اُن سب کے لیے ایک دھچکا تھا۔
وہ کہتے ہیں ’ہم پہلے راولپنڈی آ کر بیٹھ گئے تاکہ جب ان کی آمد کی اطلاع ملے تو انھیں لینے جا سکیں۔ جب وہ قریب پہنچے تو ہم واہگہ چلے گئے۔ وہاں سے انھیں لے کر واپس مظفر آباد آ گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں بے دخل کرنے والے حکام کا عمومی رویّہ ان سب کے ساتھ بہتر تھا تاہم ان کے ساتھ آنے والی ایک بہو اور ان کی بچیوں کے کیس میں تھوڑی بحث ہوئی جس کے بعد ان کا کیس قانونی غور کے بعد روک دیا گیا۔ ان کی شہریت کا معاملہ حالیہ برسوں کا ہے اور پراسیس میں تھا اس لیے انھیں وقتی طور پر واپس گھر بھیج دیا گیا۔‘
شاہد زرگر کا کہنا ہے کہ ’میرے بہنوئی کسی بھی صورتحال میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر منتقل نہیں ہونا چاہتے۔ اور ایسے میں میری بہن کا یہاں بھیج دیا جانا پریشان کن ہے۔ تاہم بہنوئی کو بہت دھچکا پہنچا ہے کہ میں جس جگہ سے اتنا پیار کرتا تھا اور اسے کبھی نہیں چھوڑا، وہاں میرے اور میرے خاندان کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’باجی کو بڑھاپے میں شوہر سے دوری کا زیادہ صدمہ ہے۔ اس عمر میں ان کے لیے دوری تکلیف دہ ہے کہ ان کے شوہر اکیلے اپنا خیال کیسے رکھیں گے۔‘
شاہد زرگر کہتے ہیں ’وہ ہماری سب سے بڑی بہن ہیں، وہ ہماری ماں جیسی ہیں۔ ان کی تو ہم یہاں خدمت کر لیں گے لیکن ان کے شوہر وہاں تنہا ہوں گے۔‘
شاہد زرگر بتاتے ہیں کہ ’وہ (حمیدہ بی بی) اس قدر صدمے میں ہیں کہ جب بھی گھر والوں سے فون پر بات کرتی ہیں تو رونے لگتی ہیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ انھیں تنہا نہ چھوڑیں اور انھیں مصروف رکھیں۔‘
کچھ لوگوں کے لیے عدالتی ریلیف
حمیدہ بی بی کے ساتھ آنے والے اُن کے کزن کی بہو کی طرح کچھ دوسرے لوگوں کو بھی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے فوری بیدخلی کے خلاف قانونی تحفظ ملا اور عدالتی احکامات پر انھیں عارضی طور پر وہاں رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔
حمیدہ بی بی کی کہانی سے تھوڑی مختلف کہانی انڈین شہری منیر خان اور اُن کی پاکستانی اہلیہ منال کی ہے جنھیں بیدخلی کے خلاف عدالت سے ریلیف مل پایا۔
سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں آنے والے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے شہری مُنیر خان اور ان کی پاکستانی اہلیہ مِنال احمد خان کی شادی بھی کئی برس قبل ہوئی تھی۔ مُنیر خان انڈیا کے نیم فوجی ادارے ’سی آر پی ایف‘ کے اہلکار ہیں۔
پہلگام حملے کے فوراً بعد دیگر پابندیوں کے ساتھ ساتھ انڈیا نے کشمیر کے ساتھ ساتھ انڈیا کے دوسرے شہریوں میں مقیم پاکستانیوں کو 30 اپریل تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ ضلع پونچھ میں بیاہی گئی پاکستانی شہری منال کو بیدخلی کی غرض سے واہگہ، اٹاری سرحدی چیک پوائنٹ پر پہنچایا گیا تھا تاہم اسی دوران اُن کے شوہر نے عدالت سے رجوع کر لیا اور عدالت نے منال کی ملک بدری عارضی طور پر روک دی۔
اسی طرح جموں کشمیر پولیس میں برسوں سے کام کرنے والے افتخار علی کے ایک بھائی اور پانچ بہنوں سمیت واپس پاکستان جانے کا حکم دیا گیا تو انھوں نے بھی عدالت سے رجوع کیا۔ افتخار علی کا خاندان چالیس برس قبل پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے نقل مکانی کر کے ضلع پونچھ میں مقیم ہو گیا تھا۔ اُن کے والد بھی پونچھ کے مینڈھر قصبے میں ہی دفن ہیں۔
کیا اِس بیدخلی کا قانونی جواز ہے؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
جموں کشمیر ہائیکورٹ میں دہائیوں سے پریکٹس کرنے والے ایک سینیئر وکیل اور قانون دان نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انڈین حکام کی جانب سے پاکستانی شہریوں کی بیدخلی کے احکامات سامنے آنے کے بعد بہت سے خاندانوں نے عدالتوں سے رجوع کیا اور انھیں ریلیف بھی ملا۔ ’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قانونی طور پر سبھی جلاوطنیاں رُک جانی چاہیے تھیں، کیونکہ یہ سب معاملات زیرِ سماعت ہیں۔‘
واضح رہے سنہ 1994 میں انڈین پارلیمان میں بھاری اکثریت سے ایک قرار داد منظور ہوئی تھی جس میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور سکردو کو ’انڈیا کا اٹوٹ انگ‘ قرار دیا گیا تھا۔
قانونی ماہر کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کا سرکاری مؤقف یہ ہے کہ پاکستان نے غیرقانونی طور پر کشمیر کے ایک تہائی حصہ پر کنٹرول رکھا ہوا ہے اور یہ کہ مکمل کشمیر انڈیا کا ہے۔ اس قانون کے تحت اب اگر کوئی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہو یا انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے، اُن سب کو عملاً انڈین شہری ہونا چاہیے۔‘
اس سلسلے میں سنہ 1980 کے انڈین سپریم کورٹ کے اُس تاریخی فیصلے کا حوالہ دیا جاتا ہے، جو سرینگر کے شہری محمد حسین شاہ کے حق میں سُنایا گیا تھا۔
حُسین شاہ دراصل تقسیم ہند سے قبل سنہ 1945 میں سکردو گئے تھے جہاں اُن کے والد تجارت کرتے تھے۔ حُسین نے سکردو کے ہسپتال میں کلرک کی نوکری کر لی۔ اسی دوران انڈیا اور پاکستان کے بیچ 1947 میں جنگ چھِڑ گئی اور سکردو پاکستان کے کنٹرول میں آ گیا ۔ 1970 کے دوران سرینگر میں حسین کی بہن کی شادی طے ہوئی تو انھوں نے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کیا اور سرینگر آ گئے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ ‘محمد حسین بمقابلہ یونین آف انڈیا’ کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
فیصلے کے مطابق حسین دوسری بار 1980میں جب سرینگر آئے تو والد کی چھوڑی ہوئی جائیداد پر رشتہ داروں کے قابض ہونے کے خدشے سے انھوں نے سرینگر میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم انھیں مقامی حکومت اور انڈین وزارت داخلہ نے جلاوطنی کا حکم دیا تو انھوں نے عدالت سے رجوع کیا۔ مقامی عدالتوں میں انصاف نہ ملا تو حسین نے انڈین سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
سپریم کورٹ نے 1955 شہریت کے قانون کی شق 9 کے تحت حسین کی جلاوطنی کو غیرقانونی قرار دیا اور فیصلہ سُنایا کہ حسین ’انڈیا کے ہی ایک حصے سے دوسرے حصے کے درمیان آتے جاتے رہے ہیں۔ اور پاکستانی پاسپورٹ انھوں ذاتی خواہش سے نہیں بلکہ مجبوری میں حاصل کیا کیونکہ سرینگر آنے کے لیے اس کے علاوہ اور طریقہ نہ تھا۔‘
بعد میں حسین سرینگر میں ہی آباد رہے۔
اس کیس کی بنا پر کشمیر میں اکثر قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے یہاں آنے والے کشمیری شہریوں کو غیرملکی سمجھ کر جلاوطن کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔
کشمیر میں رہنے والے پاکستانی شہریوں کی تین قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو ماضی کی جنگوں کے دوران یہاں آئے، دوسرے وہ جو رشتہ داروں سے ملنے کے لیے آئے لیکن واپس نہ جا سکے اور یہیں آباد ہو گئے اور تیسری قسم ان خواتین کی ہے جنھوں نے ایل او سی پار کر کے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر جانے والے کشمیری نوجوانوں سے شادی کی تھی۔
سنہ 2010 میں سینکڑوں کشمیری نوجوانوں کو ایک سرکاری سکیم کے تحت واپس آنے کی اجازت ملی تو ان کے ہمراہ پاکستانی بیویاں اور بچے بھی تھے۔ تاہم ان خواتین کو نہ یہاں شہریت ملی نہ انھیں اُس پار اپنے رشتہ داروں کے پاس جانے کی اجازت دی جاتی تھی اور پہلگام حملہ کے بعد انڈیا کی ڈیپورٹیشن مہم کا سب سے زیادہ اثر ان ہی خواتین پر پڑا ہے۔
کشمیر کے باشندوں کی شہری شناخت ہے کیا؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اگرچہ انڈیا اور پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے دونوں حصوں کے لوگ کشمیری ہی کہلاتے ہیں اور تقسیمِ برِصغیر سے ہی ان کی حیثیت متنازع علاقے میں بسنے والے شہریوں کی ہے، تاہم پہچان اور سفری دستاویزات کے لیے یہ دونوں ملکوں پر انحصار کرتے ہیں۔
پاکستان کے زیر انتطام کشمیر کی ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس منظور گیلانی کا کہنا ہے کہ اگرچہ انڈیا یکطرفہ طور پر پورے کشمیر کو 1950 سے ہی اپنی ریاست قرار دیا ہے اور حال ہی میں آرٹیکل 370 کا خاتمہ محض انتظامی تبدیلی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے باشندے آئینی طور انڈین شہری ہیں۔ تاہم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں معاملہ قدرے مختلف ہے۔‘
جسٹس ریٹائرڈ منظور گیلانی کے مطابق ’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے لوگوں کے پاس اگرچہ پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہوتے ہیں لیکن یہ ایک سفری دستاویز سے زیادہ نہیں۔ یہاں رہنے والے باشندے پاکستانی شہری نہیں ہیں۔ انھیں پاکستان میں رہنے کے لیے سہولیات کے لیے کچھ انتطامات کیے گئے ہیں لیکن کشمیری افراد پاکستان کی آئین و قانون سازی میں شامل نہیں ہو سکتے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’صرف وہ کشمیری پاکستانی شہری ہیں جنھوں نے پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کی اور وہاں کی شہریت حاصل کی ہے۔ اور صرف وہ لوگ جو وہاں کے رجسٹرڈ ووٹر ہیں نہ صرف انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں بلکہ اعلی عہدوں پر بھی فائز ہو سکتے ہیں۔ تاہم پاکستان میں کشمیریوں کی ملازمت کے لیے ایک الگ مخصوص کوٹہ بھی ہے۔‘
جسٹس ریٹائرڈ منظور گیلانی نے بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل کی شق 35 اے ون کے مطابق یہاں کے باشندوں کو سٹیٹ سبجیکٹ حاصل ہوتا ہے جو ان کے یہاں کی رہائشی ہونے کا دستاویزی ثبوت ہے۔
ان کا کہنا تھا ’چونکہ قانونی طور پر کشمیری پاکستانی شہری نہیں ہیں اور اگر ان کے پاس کشمیر کی ریاست کا سٹیٹ سبجیکٹ ہے تو اصولی طور پر انڈیا کو انھیں پاکستانی قرار دے کر بے دخل نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تو محض سفری اور شناختی دستاویزات ہیں۔‘
اسی انتظام کے تحت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اپنی ریاستی اسمبلی ہے جبکہ ریاست میں اپنی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بھی ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ منظور گیلانی کا کہنا ہے کہ ’کشمیر کے سٹیٹ سبجیکٹ کے تحت اس علاقے میں اراضی کے مالکانہ حقوق، ملازمتوں اور کاروبار کے لیے ریاستی باشندوں کو اوّلین ترجیح حاصل ہوتی ہے۔‘
بے دخلی کے انڈین فیصلے کے متاثرین کو حاصل قانونی تحفظ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کی سپریم کورٹ نے اپنے تازہ فیصلوں میں کچھ لوگوں کے پاس آدھار کارڈ اور دیگر دستاویزات کی موجودگی پر ان کی بے دخلی روک کر ان معاملات میں حکام کو نظرثانی کرنے کا حکم دیا ہے۔
کشمیری شہریوں کا خیال ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے قوانین اور تنازعوں کا خمیازہ عام کشمیریوں اور ان کے منقسم خاندانوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
اس پر جسٹس منظور گیلانی کہتے ہیں کہ ’اقومِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد اور انڈیا اور پاکستان کی آزادی کے قانون کے تحت بھی کشمیریوں کے پاس صرف یہی آپشن ہے کہ وہ یا تو انڈیا کے شہری ہونے کا انتخاب کریں یا پاکستان کے، تیسری کوئی صورت نہیں۔‘
تاہم ان کے مطابق ستم ظریفی یہی ہے کہ 78 سال سے یہی حقِ رائے دہی ہے جو کشمیریوں کو ٹھیک سے نہیں ملا۔
SOURCE : BBC